!!!برصغیر پر کرونا کا خطرناک حملہ

0
108
پیر مکرم الحق

ویسے تو پوری دنیا کرونا وائرس سے پریشان تھی لیکن حال ہی میں برصغیر کے سب سے کیثر الہ آباد ملک ہندوستان پر شدید حملہ ہوا ہے کل ایک دن میں تقریباً 32لاکھ لوگ کرونا سے بیمار ہوگئے اور تقریباً تین ہزار لوگ ایک دن میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ہندوستان کی کل آبادی اقوام متحدہ کی تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ایک ارب اڑتیس کروڑ کو پہنچ گئی ہے جبکہ چین کی آبادی ایک ارب انتالیس کروڑ ہے۔اس حساب سے کیونکہ چین بڑی اراضی کا علاقہ ہے اس لئے ایک میل کے علاقے میں397لوگ آباد ہیں۔جبکہ ہندوستان میں ایک میل کے علاقہ میں1200بارہ سو لوگ رہتے ہیں۔چین اور ہندوستان کی آبادی میں کوئی زیادہ فرق نہیں یعنی ایک سے دو کروڑ کی آبادی چین کی زیادہ ہے۔لیکن رقبہ کے لحاظ سے چین کا رقبہ ہندوستان کے مقابلہ میں تین گنا ہے۔کسی بھی عالمی وائرس میں گنجان آبادی والے ممالک میں بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔اسی لئے دیہی علاقوں کے نسبت گنجان آبادی والے شہروں میں کرونا کا پھیلائو تیزی سے ہوا ہے۔آجCNNنیوز نے بھی ہندوستان میں کرونا وائرس کے پھیلائو کو خطرناک قرار دیا ہے۔یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر دہلی میں کرونا کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا تو لوگ آس پاس کے نواحی علاقوں کی طرف جائیں گے۔اور دہلی لاہور سے زیادہ دور نہیں سرحدی گائوں کے لوگ اکثر سرحدیں عبور کرکے ادھر سے ادھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ایسے میں پاکستان پر اس خطرناک بیماری کے اثرات تیزی سے پھیل سکتے ہیں۔اگر خدا نہ کرے اگر کرونا کی بے شکل(VARIENT)کراچی پہنچ گیا تو بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔کراچی میں آکر اندرون سندھ کے لوگ آباد ہیں۔ان کے پاس تو متبادل آبائی گائوں دوست رشتہ داروں کے پاس نکل جانے کا راستہ ہے۔لیکن کراچی کی مستقبل آبادی کیلئے کوئی راستہ ہے لیکن کراچی کی مستقبل آبادی کیلئے کوئی راستہ نہیں خصوصاً اس غریب آدمی کیلا جو دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے۔وہ کہیں سفر کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا۔کراچی کیونکہ بین الاقوامی شہر ہے جس میں آبی ہوا اور زمینی راستوں تک کی پہنچ ہے۔اسلئے کراچی میں حکومت سندھ کو پندرہ دن کیلئے مکمل کرفیو لگانا ضروری ہے۔ورنہ کراچی کی کمزوری ہسپتال نظام یکمشت ہزاروں یا لاکھوں بیماروں کا بوجھ اٹھا نہیں پائیگا۔اگر کراچی متاثر ہوا تو پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں آجائیگا۔الامان اگر ہندوستان میں لوگ گلیوں اور راستوں پر کرونا سے ہلاک ہو رہے ہیں۔تو ہمیں پاکستان میں بھی زیادہ سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ایک تو فوری طور پر ہندوستان کے ساتھ ملنے والے تمام راستہ سختی سے بند کر دینے چاہئیں۔اشیاء وافرار کی نقل وحرکت پر مکمل پابندی ہونی چاہئے اور اس کام کو اہمیت دینے کے لئے بجائے کسی امپورٹیڈ وزیر یا شیخ رشید جیسے ناقابل اعتبار وزیر کے وزیراعظم عمران خان کو خود اس کام کی ذاتی نگرانی کرنی چاہئے۔تاکہ غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے اگر تو ہے معاملہ خراب ہوگیا تو پھر عمران خان صاحب بنی گالہ بھی رہ نہیں پائیں گے۔ادھر ابصار عالم جوکہ ایک معتبر صحافی بھی ہیں اور اخبارات اور جدیدوں میں اوارث کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ہیں۔ان پر اپنے گھر کے قریب پارک میں واک کرتے ہوئے فائرنگ کر دی گئی۔انہیں ہسپتال بھی جانا پڑا اب وہ ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر آگئے ہیں۔اللہ پاک نے جان تو بچا دی۔لیکن یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ آزاد صحافت پر پاکستان میں کڑا وقت آگیا ہے۔ورنہ ابصار عالم جنہیں راقم کم ازکم لیکن دیہایوں سے جانتا ہے۔ابصار جیسے شریف النفس انسان میں نہ کوئی اکثر نہ کوئی ٹیڑھی ہڈی ہو اسے بھی اگر برداشت نہیں کیا جارہا ہے۔ تو پھر واقعی طاقتور حلقوں میں برداشت ختم ہوچکی ہے۔اور حالات نے خطرناک موڑ لے لیا ہے۔ابصار عالم نے جسٹس فائز عیٰسی کے مقدمات کہ متعلق کوئی بات کہہ دی۔جو طاقتور حلقوں سے ہضم نہیں ہوئی اور گولیاں مارنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ابھی اس واقعہ سے چند دن پہلے سکھر شہر کے ایک نوجوان ہندو صحافی اجے لالوانی پر بھی اسلحہ بردار لوگوں نے منظم طریقہ پر حملہ کردیا۔آج حجام کی دکان پر بال کٹوانے گئے کہ کہیں سے دو موٹرسائیکل سوار آئے جس کے پیچھے ایک کار بھی تھی ا سمیں بھی اسلحہ بردار لوگ براجمان تھے دن دیہاڑے گولیاں چلا دی گئیں۔خون میں لہولہان اجے کو احباب اسپتال بھی لئے گئے لیکن زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اجے جانبر نہ ہوسکے۔ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ پولیس گردی کیخلاف آواز اُٹھانے پر اجے کا قتل کر دیا گیا اجے ایک چھوٹی مقامی اخبار کا رپورٹر تھا لیکن وہ ہمارا ساتھی تھا اور شہید صحافت تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here