قارئین وطنْ! کالم لکھنے بیٹھا تو گھنٹہ بھر اس سوچ میں پڑا رہا کہ آج کس موضوع پر لکھوں جب کہ لکھنے کے لئے تو وطنِ عزیز میں جوبیس گھنٹوں پر محیط سیاسی، سماجی، معاشی اور اب الگ سے کورونا یہ سب باب اپنے اندر مسائل ہی تو لئے بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی ذہن معوف ہو چکا ہے کہ کیا لکھا جائے ، ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک سجن چوہدری اعظم صاحب نے لاہور ہائیکورٹ کی تیرہ خالی آسامیوں کو پْر کرنے کے لئے ناموں کی لسٹ بھیجی اْن کے ناموں اور تعلق داریوں کا سلسلہ بھی بیان کیا گیا کہ کون کیا ہے اْس کی قا بلیت کیا ہے میں کچھ دیر تو اعظم صاحب کی اس چٹ پٹی لسٹ پر ہنسا کہ ان میں کچھ نام اپنوں کے بچوں کے بھی ہیں اور قارئین ! کو بتایا جائے ان کی حْسنِ کارگردگی کے بارے اور قلم کی حرمت کا تقاضہ بھی یہی ہے اور سوشل کنٹریکٹ کہتا ہے کہ نہیں یار تجھے بھی اسی معاشرے میں جینا ہے پردہ داری رکھ اور دڑھ وٹ۔
قارئین وطن! اَب چوہدری اعظم صاحب کو کیا معلوم کہ جیسے پیار کا سلسلہ پرانا ہے اسی طرح ججوں کی تعیناتی کا سلسلہ بھی پرانا ہے پاکستان کی ٣٧ سالہ زندگی میں مٹھی بھر جج صاحبان ہوں گے جن کی تقرری میرٹ کی بنیاد پر ہوئی ہوگی ورنہ بڑے بڑے نام رشتہ داریوں، چاپلوسیوں ، خوشامدیوں کی بنیاد پر ہماری ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی شان بنے ۔ میرا بہت گہرا تعلق ہے اس فٹرنٹی (fraternity )کے ساتھ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایک زمانہ تھا بہت سارے جج صاحبان میرے انکل تھے بقول درج شعر!
کتنے دلفریب چہرے تھے احباب کے مگر
پچھتا رہا ہوں اْن سے ملمہ اتار کر
کیسے کیسے دلفریب چہرے ہیں ہماری عدلیہ کے کہ خوف آتا ہے صرف تین نام ہی کافی ہیں عدلیہ کو سمجھنے کے لئے جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس شیخ انوارالحق ایک طویل لسٹ ہے ناموں کی لیکن کالم کی تنگ دامنی ساتھ نہیں دیتی لیکن ہمارا شعوری معاشرہ جانتا ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان کا بگاڑ کہاں سے شروع ہوا اور کہاں تک جائے گا ۔ رہا سوال پاکستان کے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان” محمد منیر ”کے فیصلہ کے بارے کون نہیں جانتا اِس کے بعد حالیہ دنوں میں دنیا کے کسی ”انصاف کے مندر” میں کہیں نظیر نہیں ملے گی کہ پولیس کسی چور لٹیرے اور خائین کو گرفتا کرنے سے دس دن پہلے مطلع کریگی کہ حضور آپ کو گرفتار کرنے آ رہے ہیں جج صاحب کے اس فیصلہ کے بعد وطن عزیز کے بڑے بڑے جیورسٹ دانتوں میں انگلیاں دبا کر بیٹھے ہیں جن میں محترم اعتزاز احسن کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے اس فیصلہ کی کھلی مذمت کی ہے بقول میرے مرشد اقبال!
فقیہہ شہر کی تحقیر یہ مجال میری
یہ اور بات کے ڈھونڈ تا ہوں دل کی کشاد
قارئین وطن ! لائٹر نوٹ کسی صاحب نے ایک صاحب خطیب کا کلپ بھیجا جس میں انہوں نے نشاندہی کی کہ ہر طبقے نے اپنے آدمی فوج میں انتظامیہ میں میڈیکل میں وکالت میں غرض ہر شعبے میں مدرسے والوں تم نے کسی مولوی کو بھیجا ہے کہ وہ بھی جج بن کر لاہور ہائیکورٹ کی طرح ہمارے حق میں فیصلہ کرتا کلپ دیکھتے دیکھتے میری ہنسی نکل گئی کہ مولوی مشتاق دیا تو ہے اور کیا چائیے قوم کو اْس کا ایک فیصلہ ہی بہت بھاری تھا کہ آج تک قوم بھگت رہی ہے اْس فیصلہ کے بعد ہمارا پولیٹیکل اور سوشل فیبرک ہی بدل گیا آج جو سیاسی گند ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے مولوی صاحب کی دین ہی تو ہے ۔ اب آئیں ذرا سیاسی گہما گہمی کی طرف چلتے ہیں جس ملک کی سیاست چاچا بھتیجی اور کزن کے آگے پیچھے باگ رہی ہو، دوسری طرف وزیر اعظم چینی چور کے مرہونِ منت ہو کہ ان کی حکومت صبح گئی یا شام گئی تو مجھے کوئی سمجھائے کہ کس سیاست کی بات کر رہے ہیں ہم ۔ نیب ہے کہ اْس ادارے نے تو پوری قوم کو شرمندہ کر دیا ہے چور سینہ تان کر پھر رہے ہیں اور شریف آدمی سر جھکا کر خوف کے مارے دائیں بائیں ہو کر گزر رہے ہیں کہ ہم نہ خانہ پوری کے چکر میں دھر لئے جائیں ۔وز یر اعظم عمران خان کا روز شور سنتا ہوں کہ سب چوروں کو اندر کروں گا لیکن کیا کہیں کہ سب سے بڑا چور ولائیت میں بیٹھ کر عوام کا اور سسٹم کا مذاق اڑا رہا ہے بشمول وزیر اعظم میں اتنی طاقت ہے کہ نواز شریف اور اْس کے ہمراہیوں کو گرفتار کرے بلکہ نواز شریف باہر بیٹھ کر شاٹ کال کر رہا ہے یہ ہے ہماری سیاست کا حال ۔ دوسری جانب کورونا ہے کہ انتظامیہ پر ہیبت طاری ہے ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ کب ”رضیہ غنڈوں کے نرغے سے آزاد ہو گی؟ بٹ صاحب تب تک کے لئے باری تعالیٰ سے رحم کی بھیک مانگیں اور وطن کی فکر کریں۔ پاکستان زندہ باد!
٭٭٭