سورہ شوریٰ کی آیت نمبر تیس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”جو مصیبت بھی تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے” تو کیا کرونا کی مصیبت جو ابھی ہم پر وارد ہوئی ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے، اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں اچھے اعمال اور برُے اعمال، اچھے اعمال کی وجہ سے تو کوئی مصیبت نہیں پڑ سکتی، برُے اعمال میں بھی معافی مل سکتی ہے بشرطیکہ صدق دل سے معافی مانگ لی جائے اور ان کو دہرایا نہ جائے ۔بھول چوک سے سرزد ہوئے برُے اعمال کا کفارہ صدقہ یا کسی اچھے اعمال کی صورت میں ادا کر دیا جائے تواللہ معاف کر دیتا ہے لیکن جب آپ ایسے گناہ کرو جن سے انسانیت کا جنازہ نکل جائے تو عذاب الٰہی کے لیے تیار رہنا چاہئے، کشمیر کی جو مائیں بہنیں فریاد کرتی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں کیا آسمان نہیں دیکھ رہا تھا کہ کس طرح سے انکی عزتیں پامال ہوئیں ؟کس طرح سے ان کے شیر خوار بچے دودھ کے لیے ترستے مر گئے، جوان عورتوں اور لڑکوں کہ جن سے زیادتی کر کے مار دیا گیا ،ان کے لاشے اپنے ہی گھروں میں زمین کھود کر دفنانے پڑے کہ گھر سے باہر نکلنے کی آزادی نہیں تھی، بوڑھے دوائیاں نہ ملنے سے سسک سسک کر جان سے گئے ،کرفیو کے دوران بھارت کی9 لاکھ فوج کا سخت پہرا جہاں چڑیا بھی پر نہ مار سکے، ہسپتال جانے کے لیے ایمبولینس گزرنے کی بھی اجازت نہ تھی، اسی لاکھ انسان ایک بڑی جیل کی صورت میں سالوں سے قید ہیں ،مودی کی ظالم حکومت کو اپنا ایجنڈہ پورا کرنا تھا سو اس نے کیا ،پوری دنیا یہ تماشا دیکھتی رہی اور خاموش تماشائی بنی رہی ،وزیر اعظم عمران خان نے انسانیت کے سب سے بڑے پلیٹ فارم اقوام متحدہ میں واویلا کیا ہر اس جگہ پر اسکی دہائی دی جہاں ممکن ہو سکتا تھا کہ بات سنی جائے ۔ہر بڑے چینل پر بات کی لیکن کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی اب بھگتو مظلوم کی آہ لگتی ہے ۔تیار رہو کہ عذاب الٰہی آچکا ہے ،پوری دنیا بھگت رہی ہے ،شرم سے نہیں تو کرونا سے منہ چھپائے پھر رہی ہے جیسے کشمیر میں پتا نہیں کتنی ہلاکتیں ہوئیں ،نامعلوم کرونا کے عذاب سے کتنے مریں گے، انڈیا جس نے کشمیر پر ظلم کی انتہا کر دی سب سے زیادہ متاثر ہے، دنیا تو بھگت چکی ، انڈیا میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ سسک سسک کر جان دے رہے ہیں، روزانہ کرونا کے لاکھوں نئے کیسز رجسٹرڈ ہو رہے ہیں ،ہسپتالوں کے باہر ایمبولینسوں کی قطاریں لگی ہیں جن میں کرونا کے جاں بلب مریض آکسیجن کے لیے ترس رہے ہیں ،کرونا کے مریض ہسپتالوں میں بھی اور باہر بھی دم توڑ رہے ہیں ،شمشان گھاٹ جہاں مردے جلائے جاتے ہیں وہاں جگہ کم پڑ گئی، لمبی قطاریں مردے جلانے والوں کی لگی ہیں، سخت سے سخت کرفیو لگا کر بھی دیکھ لیا گیا ہے مگر حالت جوں کی توں ہے ،انڈیا میں حکومت بڑے بڑے پرائیویٹ صنعتی یونٹوں کے مالکان اور سلیبرٹیز اپنی دولت دان پر دان دئیے جاتے ہیں لیکن کرونا کنٹرول میں آنے کا نہیں ،اوپر سے ہندوؤں کا میلہ جہاں گنگا اشنان روکے جانے کے باوجود منایا گیا یہ سب کیا ہے؟ یہ عذاب الٰہی نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے؟ انڈیا میں ایک ریکارڈ تعداد میں کرونا ہر روز پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، اعدا و شمار سن کر خوف آنے لگا ہے، انڈیا پوری دنیا کے لیے کرونا ویکسین بنانے کے لیے حب بنایا گیا تھا، ویکسین بن رہی ہے تقسیم بھی ہو رہی ہے اور لگ بھی رہی ہے مگر انڈیا کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں، ان کے ہسپتالوں میں گنجائش سے بڑھ کر مریض داخل ہیں، اب تو مسجدوں میں بھی بستر لگ گئے ہیں وہ متعصب ہندو جو کسی مسلمان کے گھر کے سائے سے بھی دور بھاگتا تھا اب مسجد میں لیٹا ہے ،یہ نہیں کہ مسلمان نہیں مر رہے جب عذاب آتا ہے تو لپیٹ میں سب ہی آتے ہیں کیا ہمیں اب اجتماعی توبہ نہیں کر لینی چاہئے، کیا ہم اپنے وتیرے سے باز آ سکیں گے، پاکستان نے اپنے ہمسایہ ملک انڈیا کو امداد کی آفر کر دی ہے، اپنے تجربے سے استفادہ کرنے اور ضروری سازوسامان بھی مہیا کیا جائے گا، ابھی پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں جیسے انڈیا میں لیکن خطرہ بڑھ رہا ہے پاکستان میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے ماسک پہننے کو یقینی بنانا ہے، اب تو افواج پاکستان بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کے لیے میدان میں کود پڑی ہیں۔ اللہ بہتر کرے !اے اللہ ہم توبہ کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ انسان اور انسانی اقدار کو پامال نہیں ہونے دیں گے جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، ہمیں معاف فرما دے، میرے مالک کرونا کے عذاب سے دنیا کو نجات دلا دے، میرے اللہ بے شک تو ہر شے پر قدرت رکھتا ہے، آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭