سوشل میڈیا کے فراڈ اور مخیر حضرات

0
149
کامل احمر

خواتین وحضرات سوشل میڈیا پر آج کل جو فراڈ ہو رہے ہیں۔ہم بتاتے چلیں ایسے کسی گمنام شخص یا تنظیم کے ہاتھوں آپ نشانہ بننے سے بچیں، یہ کھیل طرح طرح سے مختلف رنگوں میں کھیلا جارہا ہے۔حال ہی میں پاکستان سے کسی محترمہ نے فریاد واٹس اپ پر ڈالی تحریر کچھ اس طرح تھی۔
سنگل مام کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے میری اس درخواست کو پھیلا دیں اپنے اپنے حلقوں میں نیکی ہے۔
میری بیٹی(نام دیا ہے لیکن لکھنا ضروری نہیں)بوسٹن یونیورسٹی میں ٹرانسفر طالبہ کی حیثیت سے تعلیم اس سال میں شروع کریگی۔وہ فنانس اوراکنامکس میں اہم تعلیم حاصل کریگی۔مجموعی فیس ہائوسنگ اسکالر شپ کے بعد35ہزار ڈالر ہے۔ایک سنگل ماں کی حیثیت میں جس کی دو لڑکیاں ہیں میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ کفالت برداشت کرسکوں۔میں نڈھال ہوچکی ہوں ،دونوں لڑکیوں کو پرائیویٹ امریکن سکول میں تعلیم دلوا کر میرے تمام ذرائع ختم ہوچکے ہیں۔میری چھوٹی بیٹی ہائی سکول کے آخری سال میں ہے اور اس وقت بڑی لڑکی کے دو سال کی کفالت کرنے سے معذور ہوں۔جس میں سے ساٹھ فیصدی فیس5اگست تک دینی ہے۔اور بقیہ قسطوں کی شکل میں ہم نے اسکول سے بھی درخواست کی تھی اور انکار ہوگیا۔میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ میری مدد کریں ایک فون نمبر بھی دیا گیا تھا کہ اس نمبر پر آپ کو بنک اکائونٹ دیا جائیگا جس میں پیسے جمع کرا سکتے ہیں۔یہاں کا ایک فون نمبر بھی دیا گیا تھا جس پر کال کرکے آپ تفصیل لے سکتے ہیں۔شاید کسی نے مدد کی تھی لیکن انکا کہنا تھا وہ فون پر شکریہ نہیں کرسکتیں بے حد جذباتی ہوجانے کا خدشہ ہے ہم نے یہ جاننے کے لئے واٹس اپ پر جواب دیا ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔کالج میں داخلے اور فیس کی ڈیمانڈ نوٹس کی ضرورت ہے اور5اگست سے لے کر آج تک جواب موصول نہیں ہوا۔پھر انکے دیئے ہوئے ذیلی نمبر پر فون بھی کیا خاموشی ایک رنگ کے بعد یہ ایریا کوڈ مساچوسٹ ریاست کا تھا۔ٹائون کا نام نہیں معلوم۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر واقعتاً یہ صحیح بھی ہے تو ان محترمہ نے کیا کیا سمجھ کر دوسروں کے کاندھوں پر بندوق رکھی۔اور کیا پاکستان میںاچھے سکول نہیں جس میں داخلہ لے کر وہ اسکالر شپ لے کر انکی بیٹی آسکتی ہے اور تو اور اگر آپ کے مالی حالات ایسے ہیں تو پاکستان میں بھی ایسے مخیر حضرات ہیں۔وہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں جیسے امریکہ میں رہنے والوں کے اپنے بچے نہیں یہاں بہت سی ریاستوں میں ریاستوں کے کالج اور یونیورسٹیز ایسی ہیں۔جن کی فیس بہت کم ہے ان ساری باتوں کا جائزہ لے کر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بھی بیرون ملک بیٹھے لوگوں میں سے کسی کی شرارت ہے اگر آپ پھر بھی انکی مدد کرنا چاہیں تو کردیں۔
اسی طرح کی دوسری اسکیمیں آتی رہتی ہیں اس میں یہاں کے لوگ بھی شامل ہیں۔مثلاً میری ماں، بچہ یا باپ کینسر کا مریض ہے مالی تعاون کی ضرورت ہے۔پاکستان سے بھی کہ علاج کا خرچہ دس بارہ لاکھ ہے۔یہاں کے لئے لکھتے چلیں کہ امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں دل کا ،دماغ کا، گھٹنے اور کینسر کا علاج مفت ہے۔اگر آپ کے پاس گرین کارڈ ہے ایک ایسی ہی درخواست پر ہم نے ضرورت مند کو فون پر بتایا۔سلوںکیٹرنگ ہسپتال جائیں ساری سہولتیں بلکہ آپ کی رہائش بھی میکلڈانلڈ والے فری کردینگے۔مریض کے قریب رہنے کے لئے نیویارک میں45سال سے نیچے لوگوں کا ہیلتھ کارڈ(عارضی)بنتا ہے کوئی معاوضہ نہیں ریاست سارا خرچہ ٹیکس دینے والوں کی جیب سے کرتی ہے۔
ایک اور مہم کئی برس سے چل رہی ہے اس میں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ بھی شریک تھے جو دو دفعہ امریکہ آکر لوگوں سے پانی کے نل لگوا کر پیسے جمع کرتے رہے ہیں یہ ایک ثواب کا کام ہے اور اگر واقع یہ تنظیمیں پیسے جمع کرکے نل لگواتی ہیں تو ہم بھی شریک ہونے کو تیار ہیں۔
لیکن پچھلے دنوں پنجاب کے خانیوال میں رہنے والے ایک دوست نے ہمیں بتایا یہاں ایسی بھی تنظیمیں ہیں جو آپ کے نام کی تختی ایک ہی نل پر لگوا کر تصویر آپ کو بھیج دیتی ہیں۔ یہ نل سینکڑوں تختیوں کا بوجھ برداشت کر چکا ہے۔غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے اور صدقہ جاریہ بھی ہے اگر آپ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں نل لگوا دیں اور اس پر خرچہ بھی کم آتا ہے خاص کر سندھ کے دیہی علاقوں میں جہاں سندھ کی حکومت کوئی کام نہیں کرتی۔
ہمارے ملک میں دستر خوان کا کام ایک اجتماعی اور انفرادی حیثیت اختیار کر گیا ہے یہ بھی درست ہے کہ پاکستانی قوم، خیرات، صدقہ، زکات دستر خوان ہزاروں اور دوسرے مذہبی تہواروں پر بے دریغ خرچ کرتی ہے۔لیکن حکومت کو یہ ہی لوگ اپنی آمدنی اور تجارت پر ٹیکس دینے سے گریز کرتی ہے مغربی ممالک میں ٹیکس پیشگی نے لیا جاتا ہے روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے جس سے تنخواہ دار شہری بچ نہیں سکتا۔لیکن پچاس بڑی کمپنیاں ٹیکس کی مد میں ایک سینٹ بھی نہیں دیتیں یہ بات پھر کبھی سہی۔
یہاں بھی ہمارے کاروباری لوگ کارپوریشن بنا کر پوری آمدنی میں خرچ نکال کر ٹیکس نہیں دیتے یہ بھی فراڈ ہے لیکن وہ پابندی سے نماز روزہ اور حج کرتے ہیں۔ہم میں سے اکثریت آنے والوں کی ایسی ہے کہ وہ دوسروں کے ٹیکس ڈالر پر زندگی بھر عیش کرتے ہیں کیسے ہم سے آپ معلوم کرسکتے ہیں فراڈ کئی طرح کے ہیں امریکہ میں ایسا کرنے میں ریاست اور فیڈرل ایسے قانون بناتی ہے کہ وہ بچ جاتے ہیں ہم ایک ایسے ٹھیکیدار سے ملے جو دو ملین کے مکان میں رہتے ہیں۔میڈبکیڈ پر علاج اور دوسری سہولتیں مفت ان کا کہنا تھا یہودی بھی کرتے ہیں۔ہمارا کہنا ہے آپ نے یہاں کی اچھی باتوں کو نہیں اپنایا یہ وبا عام ہے۔گوشت بیچنے والے سے میڈیکل فیلڈ میں خدمات دینے والے ڈاکٹر بھی شامل ہیں اور وقتاً فوقتاً وہ قانون کی لپیٹ میں آتے ہیں۔سب نہیں چند مگر قصور ان کا نہیں یہاں کے ہیلتھ سسٹم کا ہے اور فارماسیٹیکل(دواساز)کمپنیاں بھی اس فراڈ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں آسمان سے باتیں کرنے والی دوائوں کی قیمت مثال دیتے چلیں۔کان میں تکلیف ہوجائے تو اعشاریہ5سی سی کو چھنگلی برابر اینٹی بائیوٹک ڈراپ کی قیمت اگر انشورنس نہیں تو150ڈالرز سے235ڈالرز تک ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here