تحریک انصاف کی حکومت نے عدم برداشت کی تمام حدیں پار کرکے اظہار رائے پر قدغن لگانے کی راہ میں پچھلی آمرانہ حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔مرد صحافیوں پر پابندیاں، اغوائ، جیل اور انکا قتل تو پرانی باتیں ہوگئی ہیں۔اب تحریک انصاف کی حکومت نے خواتین صحافیوں کے خلاف غلیظ ترین ٹرولنگ شروع کر رکھی ہے ،(Trolling)انگریزی کا لفظ ہے جسکا اصل مطلب کسی چیز یا جگہ یا شخص کے متعلق مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنا ہے لیکن آجکل سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا مطلب شدید ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔خصوصاً خواتین کو ہراساں کرنا جوکہ اب مہذب معاشرے میں ایک سنگین جرم قرار دے دیا گیا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی جماعت کی طرف سے نامور صحافی سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نویس خاتون عاصمہ شیرازی کے خلاف ایک مہم کی صورت میں چلائی جارہی ہے۔عاصمہ شیرازی ایک بہادر سینئر صحافی ہیں جنہیں پہلے بھی ہراساں کرنے کی کوششیں مشرف حکومت سمیت پچھلی حکومتوں نے کی ہیں لیکن موجودہ حکومت اور انکے اہلکاروں نے انتہا کردی ہے۔گری ہوئی غلیظ گالیوں کا استعمال سوشل میڈیا پر اور پھر بجائے معذرت کرنے کے حکومتی وزراء اس غیر مہذب رویے کا دفاع ٹی وی چینلز کے پروگرامز میں آکر کر رہے ہیں۔اور یہ فرما رہے ہیں کہ اگر ہمارے خلاف غلط کالم لکھے تو ہمارے کارکن(ٹرولرز گالیاں دینے کا کام تنخواہ لیکر کرتے ہیں)یہ سیاسی کارکن نہیں ہیں یہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی جانکاری رکھنے والے جز وقتیPart timeملازمین ہیں۔اب سن لیجئے کہ عاصمہ شیرازی سے کیا خطا ہوئی ہے انہوں نے ایک کالم میں عمران خان اور انکی اہلیہ پنکی بی بی کی تو ہم پرستی کی بات کی ہے۔ تعویذ، ٹونے اور ٹوٹکوں کا ذکر کیا ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،پورا پاکستان جانتا ہے کہ خان صاحب اور ان کی موجودہ بیوی کی شادی کے پیچھے کیا محرکات کار فرما تھے؟ کیسے مانیکا صاحب جوکہ محترمہ کے پہلے شوہر تھے انکے ساتھ طلاق دلوا کر عمران خان کے ساتھ شادی کروائی گئی تاکہ خان صاحب وزیراعظم بن سکیں۔اگر بیچاری عاصمہ شیرازی نے توہم پرستی کی بات کردی تو کونسا آسمان ڈھا دیا اور وہ ایک مستند صحافی ہیں انکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں صحافی کا یہ کام ہے کہ وہ سیاسی شخصیات اور انکے شوہر یا زوجہ کے متعلق تبصرے پیش کریں کونسا جرم کیا کہ انہیں آپ بطور ایک سیاسی جماعت جن کی نمائندہ آج وزیراعظم ہائوس پر براجمان ہے ایک کمزور خاتون صحافی پر تنقید نہیں، انہیں گندی گندگی گالیاں دیکر انکی تشہیر کریں۔
یہی حرکتیں اگر نوازشریف کرتے تو کہا جاتا کہ ہے تو لاہور کے اندرون شہر کے بدمعاش ہیں!!اگر آصف زرداری کرواتا تو کہا جاتا کہ یہ سندھو کا جاہل وڈیرا ہے۔اس سے اور کیا توقعہ کی جاسکتی ہے۔لیکن آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھا لکھا برطانیہ میں پلا بڑھا کرکٹ کی دنیا کا بین الاقوامی ہیرو جوکہ لاہور کے مہذب ترین محلہ زمان پارک کا رہائشی جسکے خاندان کے آدھے لوگ فوج میں جرنل بریگیڈیئر آدھے پولیس اور سول سروس میں آئی جی سیکرٹری داخلہ وزیر مشیر رہے شوکت خانم کا اکلوتا بیٹا جس کے نام سے ایک عظیم الشان اسپتال بنانے کیلئے دنیا بھر کی خاک چھان کر چندہ اکٹھا کرنے والا کے نام کو خراج تحسین پیش کرنیوالا ایک بھوکا بیٹا آج اپنے خلاف لکھنے والی ایک صحافی خاتون کو ڈرانے دھمکانے کیلئے ایک غلیظ زبان کی ٹرولنگ کا سہارا لے رہا ہے۔عاصمہ شیرازی کی آنسو بھری آنکھیں اسکی کمزوری نہیں بلکہ اپنی لکھی ہوئی بات اور قلم کی طاقت کا ثبوت ہے۔یہ وہ زہر کا پیالا ہے جو سقراط سے لیکر آج تک سپریم بولنے والے کو پینا پڑتا ہے۔یہ طاقتور کے سامنے سچ کہنے کی قیمت ہے جو آج کے دور کانہ صرف ہر سچا صحافی بلکہ ہر باشعور اور اصول پرست آدمی کو ادا کرنی پڑتی ہے۔اگر طاقتور کو اپنی تلوار یا ستوت شمشیر پر گھمنڈ ہے تو قلم کار کو بھی اپنی قلم کی نوک پر ناز ہے جو تلوار کی نوک سے بھی خطرناک ہے۔
جس عدم برداشت کا مظاہرہ تحریک انصاف نے اپنے تین سالہ حکومتی دور میں کیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے اور جو عدم توازن عمران خان کی پرانی تقاریر اور موجودہ حکومتی رویے میں نظر آتا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انکے قول وفعل میں بڑا تضاد ہے۔وہ ایک ڈھکوسلہ تھا۔اصل عمران خان کی عکاسی انکی حکومتی پالیسیاں اور طریقہ کار واضع کر رہا ہے۔اس سے پہلے بھی ثناء مرزا کے ساتھ بدتمیزی کنٹینر دھرنے میں کسی کو نہ بھولا ہوگا۔ثنا بچہ کو ہراساں کرناتو نسبتاً حال ہی کی بات ہے۔بین الاقوامی صحافتی تنظیم”رپورٹرس نے تحریک انصاف کے اس رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس آن لائن مہم کو تحریک انصاف کے حمایتیوں کی طرف سے چلائے جانے کی تصدیق کی ہے۔ویسے تو دنیا بھر میں صحافی ہر طرف سے نشانے پر ہیںلیکن خواتین صحافیوں کے خلاف طوفان بدتمیزی کے سہرا پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے حصے میں ہی آیا ہے۔انسانی حقوق کی خاتون وزیر شیری مزاری نے تو حد کردی جنہوں نےBBCکو بھارتی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کہہ کر عاصمہ شیرازی کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیدیا ہے۔یہ نمونہ ہے ترقی پسند وزیر برائے انسانی حقوق کی روشن خیالی کا۔
٭٭٭