پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی شکست فاش اور پارٹی کی توڑ پھوڑ سے تحلیل و تشکیل سے پتہ چل گیا کہ یہ کوئی سیاسی پارٹی کی بجائے ایک ہجوم تھا جس کا پختون خواہ میں ایک مذہبی پارٹی نے جنازہ نکال دیا ہے جو گزشتہ آٹھ سال سے حکمران چلی آ رہی تھی جس کو پارٹی کے مالک عمران اپنی 22سالہ جدوجہد کا نام سے پکارتا چلا آرہا ہے جس کی بنیاد جنرل ضیاء الحق، جنرل گل حمید، جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام اور جنرل فیض حمید نے رکھی تھی جو مختلف ادوار میں عمران خان کی پرورش، تربیت اور ہر طرح مدد فراہم کر رہے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان جو پشتو کا ایک لفظ تک جانتا نہ تھا جس کے والدین کا تعلق جالندھری اور میانوالی پنجابی اور سرائیکی زبانیں بولنے والوں سے ہے جو بذات خود لاہور میں پیدا اور پروان چڑھے ان کو پہلے پٹھان بنا کر پختونخواہ میں پیش کیا پھر پورے پاکستان پرمسلط کر دیا جس نے پورے پاکستان کو سیاست کی بجائے کرکٹ کا کھیل بنا دیا۔ جہاں مخالف ہر حالت میں شکست دینا ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان کی اپوزیشن کو آئینی عہدوں کی نامزدگیوں کے لئے آئینی مذاکرات اور مشورے نہیں کئے جاتے جو صرف اور صرف حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے آپ میں مذاکرات اور میل ملاپ سے نامزد ہوتے ہیں جس میں الیکشن کمیشن کے ممبران اور نیب کا چیئرمین اوردوسرے آئینی عہدے پائے جاتے ہیں جن کی جگہیں خالی ہیں جن کو اس لیے پرُ نہیں کیا گیا کہ عمران خان حزب اختلاف کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتا ہے حالانکہ ایک کھلاڑی میں قوت برداشت پائی جاتی ہے جو اپنی شکست کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے مگر یہاں پاکستان کے منتخب نمائندوں کو تسلیم نہ کیا گیا جس کی وجہ سے پورا ملک انتشار اور خلفشار کا شکار ہو چکا ہے تاہم آج لگتا ہے کہ بوٹ والوں نے عمران خان کے سر سے ہاتھ ہٹا لیا ہے جس کا نتیجہ پختون خواہ میں آیا کہ مولانا فضل الرحمن اور اے این پی نے میدان مار لیا ہے جو کہ ایک سائن ہے کہ عوام کو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جڑے رہنے کا موقع ملا ہے ورنہ ایسے حالات میں عوام جھتے بازوں کے ہاتھ چڑھ جاتے تو ملک میں مکمل انارکی پھیل جاتی ہے جس کا صوبہ پختونخواہ پہلے ہی شکار ہے یہاں بہت سے سیاستدانوں کا قتل عام ہوتا چلا آ رہا ہے جس کے پیچے سخت گیری اور بنیاد پرستی گروہ ہیں جو پاکستان کو بھی افغانستان بنانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان بھی تاریکیوں میں ڈوب جائے جس کے بعد کوئی بھی جنرل، جج اور جرنلسٹ نہیں بچے گا بہتر یہی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا نفاد ہو۔ پاکستان کے سب عوام کو ہر مرضی میں شامل کیا جائے جس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہو تاکہ عوام اپنی پسند کے امیدوار مجلس شوریٰ میں بھجوائیں جو ملکی عوام کے درپیش مسائل حل کر پائیں چونکہ 25جولائی 2018ء کو پاکستان میں ایک منظم دھاندل برپا کیا گیا جس میں الیکشن کمشن بند، پولنگ ایجنٹس بند، کمپیوٹر بند، نتائج بند کر کے ایک ایسے شخص عمران کو لایا گیا جو پاکستان کے حالات واقعات سے نابلد گزرا ہے جس کی تربیت کرنے والے سیاست سے ناواقف ہیں جنہوں نے سازشوں کا سہارا لے کر ایک نااہل اور احمق شخص کو حکمران بنایا جس نے پاکستان کو ہر مقام پر تباہ و برباد کر ڈالا کہ آج پاکستان کسی بھی وقت دیوالیہ پن کا اعلان کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب ملکی خزانہ خالی ہو ،ساہوکاروں کو قرضے دینے کے پیسے نا ہوں، سرکاری ملازمین اور اسٹیٹ بینک کی بین الاقوامی ساہو کاروں کے حوالے کر دیا جائے ۔ ایکسپورٹ ختم ہو جائے ملکی قومی اثاثے اورادارے گروی رکھنے کا چرچا ہو، سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل ہو جائے، قومی خزانہ خالی ہو تو پھر پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گا جو اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتے حال ہی میں اسٹیبلشمنٹ کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ سیاست کے اندر یا اوپر ریاست بنا کر رہنا چاہتی ہے یا پھر دوسرے مہذب جمہوری ملکوں کی طرح انتظامیہ کا ایک دفاعی ادارہ جو انتظامیہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو جواب دہ ہو جس طرح آج بھارت، چین، روس، برطانیہ ، فرانس اور امریکہ کے فوجی ادارے ہیں جو انی اپنی حدود کے مطابق حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں جن کو اپنے وزیروں اور مشیروں کو جواب دینا پڑتا ہے جن کی اندرونی اور بیرون ملک معاملات میں مداخلت قومی جرم تصور سمجھی جاتی ہے لہٰذا ایسے تمام طاقتور اداروں کو قوم کے سامنے جھکنا پڑے گا تاکہ پاکستان بھی دنیا کے سامنے ایک کامیاب ترین ریاست بن کر ابھرے ورنہ سولہ دسمبر1971 کے سانحہ کے لئے تیار رہنا ہو گا۔