قارئین وطن! ہفتہ جنوری کو نیو یارک کا موسم مائینس میں تھا میرے آفس میں وطنِ پاکستان کی سیاست پر ہمارے دل سے عزیز بیرسٹر رانا شہزاد نے ماحول کو اس بحث سے گرمایا ہو تھا کہ پاکستان میں بہت جلد صدارتی نظام نافذ آنے والا ہے اس بحث میں خادم وطن، شیخ شعیب اور کونسل مسلم لیگ کے سیکٹری جرنل گوہر علی خان بھی شریک تھے۔ رانا صاحب کا استدلال یہ تھا کہ عمران خان صدارت کا منسب سنبھالنے والے ہیں شیخ صاحب نے ان سے استفسار کیا کہ وہ کیا طریقہ کار ہوگا کہ عمران خان صدر کس بل بوتے پر بنائیں جائیں گے انہوں نے بتایا کہ موجودہ پارلیمنٹ ہی خان صاحب کو اس عہدہ پر فائیز کرے گی ان کے اس استدلال میں خان صاحب کے ساتھ محبت اور ذاتی خواہش مکمل طور پر جھلک رہی تھی رانا صاحب کا شور اس بات پر بھی بہت زیادہ تھا کہ پاکستان کو ایک اسٹیبل (stable) حکومت کی ضرورت ہے اس میں تو کوئی شق نہیں کہ ملک کو ایک پائیدار حکومت کی ضرورت ہے لیکن کس مکینکس کے تحت خان صاحب صدر کا عہدہ سنبھالیں گے جبکہ آج کی تاریخ میں ان کے حصہ میں بہت ناکامیاں دیکھنے میں مل رہی ہیں ہم سب محفل میں شریک تین دوست عمران خان کے ویل وشر تھے لیکن سچی بات ہے کہ ان کی اپنی حکومت پر گرفت کمزور نظر آرہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کہ احتساب کا نعرہ دم توڑتا ہوا دکھتا ہے کہ تمام بڑے قوم کو لوٹنے والے لٹیرے نواز شریف ، شہباز شریف، آصف زرداری اور ایک طویل فہرست شامل ہے ان لوگوں کی جو اِن لوگوں کے ساتھ لوٹ کے کاروبار میں ملوث تھے لیکن یہ سب دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور دوسرا مہنگائی آسمانوں سے بھی پرے ہے جہاں حکومت بلکل ناکام ہو چکی ہے مہنگائی پر قابو پانے پر حکومت کے ان دو منفی اقدامات نے ہی خان صاحب کو شکست خوردہ بنایا ہوا ہے۔
قارئین وطن ! ہمارا سیاسی صدارتی نظام اتنا دلکش نہیں رہا جرنل ایوب خان ، جرنل یحی خان، جرنل ضیا الحق اور جرنل پرویز مشرف ان چاروں کا دور ہمارے سامنے ہے چاروں جرنیل امریکی سی آئی اے کی پشت پناہی کے مرحونِ منت ہیں اور خاص طور پر ضیالحق اور پرویز مشرف نے اپنے اپنے مارشل لا کے سیاہ دور کو دوام دینے کے لئے جو گند گھولا اور جمہوریت کے نام پر جو سیاسی پنیر ی لگائی اس پر طف طف ہی کیا جا سکتا ہے جبکہ قوم نے اِن سے بڑی امیدیں جوڑ رکھی تھیں کیا ملا آسیب پاکستان نواز شریف پرویز مشرف سے چوہدری برادران اور آصف زرداری اب پھر امید کی جا رہی ہے کہ ایک بار پھر صدارتی نظام نافذ کیا جائے جو لوگ سانپ اور راون کے زندہ رہنے کی دعا کریں وہاں کون سا نظام چل سکتا ہے۔
قارئین وطن ! اب جب میں کالم درج کر رہا تھا تو خبر نشر ہو رہی تھی کہ نواز شریف کی ن لیک کے چار ساتھی جی ایچ کیو کی یاترا کر کے آئے ہیں اور اپنے اپنے آپ کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کر کے آئیں ہیں لیکن بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ جی ایچ کیو کا نام چھپا رہے ہیں اور مزے کی بات حکومت جانتے ہوئے کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن اتنا خوف ہے ہمارے رہنماں پر کہ جرنل کی چھڑی سے اتنا ڈرتے ہیں کہ نام لیتے ہوئے ڈرتے ہیں یہ کیا سیاست کریں گے ہاں یہ صرف ایک کام کر سکتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد قوم کو لوٹ سکتے ہیں۔ ان حالات میں جہاں گیٹ نمبر چار کے مکین اتنے طاقت ور ہیں اور ہر شخص اپنے سروں پر ان کا ہاتھ چاہتا ہے وہاں عمران خان صدر کا عہدہ سنبھال کر کیا کرے گا حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ صادق و آمین ہے اور اس نے ذاتی طور پر ایک دھلے شہباز شریف والا دھیلا نہیں بلکہ حقیقت میں کرپٹ نہیں ہے پھر بھی اس کو چلنے نہیں دیا جا رہا ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں اور اعلی عدلیہ کے سربراہان کو بھی اپنی اپنی ذمہ واری سمجھنے کی ضرور ہے کہ اس وقت ملک کو مافیا نے جکڑ رکھا ہے اور خاص طور پر بیرون ملک سے کتنی مداخلت ہو رہی ہے عمران خان کے خلاف لیکن ان دو اداروں نے جو فری ہینڈ دیا ہوا ہے چوروں اور لٹیروں کو جن کی وجہ سے حکومت کھلبلی کا شکار ہے خدا کے واسطے ملک کی سلامتی کی طرف توجہ دیں اور اپنے گیٹ برکے والے اور سیاسی قلندروں پر بند کریں تاکہ ملک stable ہو جائے ،باقی رہا سوال صدارتی نظام کا تو پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بجائے ریفرنڈم کر وائیں جس میں ضیاالحق اور مشرف والے ریفرنڈم کا عکس نظر نہ آئے بلکہ پوری قوم کی ول شامل ہونی چائیے اسی میں پاکستان کی خیر ہے-
٭٭٭