ہم اچھے انسان بن سکتے ہیں!!!

0
142
کامل احمر

ایک اچھا پاکستانی اور ایک اچھا انسان بننے کے لئے ہم سب کو اپنے رویوں اور حرکات کے علاوہ اپنی سوچ جو ایک دوسرے کے لئے ہے بدلنی ہے ،یہ درست ہے کہ گھر گھر میں افراتفری ہے اس کی وجوہات کئی ہیں۔والدین بالخصوص مائوں کی بچوں کو تربیت بڑوں کی عزت عزیزاقارب(فریبی)بالخصوص بڑوں کا ادب سکھانا بے حد ضروری ہے ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ ان نسلوں کی کوئی پہچان نہیں ہوگی۔یہاں کے سکول میں بھی ادب اور تربیت نام کی کوئی چیز نہیں ،آزادی ایک خوبصورت چیز ہے لیکن آزادی کا غلط استعمال سوچوں کو زہر آلود بنانے کے لئے کافی ہے اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں اس کی ایک اور وجہ ہے جب ہم پاکستان جا کر لوگوں کا رویہ دیکھتے ہیں اور نوجوان نسل کی حرکات پر غور ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے والدین کو پال رہے ہیں مائوں سے ماسیوں کا کام لے رہے ہیں چند ہی لوگ ایسے ہیں جہاں شعور اور ادب ہے۔یہ سب پاکستانی اپنے اپنے مسلک کے تحت اسلام کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔لیکن حقوق العباد کی کمی ہے تو ہم یہاں کے بچوں کو دیکھ کر کہتے ہیں اللہ کا شکر ہے کس قدر مشکل ہے بچوں کی تربیت انہیں اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی باتیں سکھانا اور بڑوں کی عزت کروانا۔بڑوں کی ذرا ذراسی باتوں پر جو ہر چند مذاق کے طور پر کی گئی ہوں ان کے بگڑ جانے میں ایک لمحہ لگتا ہے، انہیں یہ بھولنے میں کہ کون چچا اور کون ماموں کون پھوپی اور کون خالہ بس صرف لے دے کے ماں رہ جاتی ہے یا ساس اور سُسر، پہلے لڑکیاں بیاہی جاتی تھیں اور اب لگتا ہے لڑکے بیاہے جاتے ہیں زمانہ ایسا کبھی نہ تھا اور نہ ہی لوگوں کی فطرت ایسی تھی دو بھائیوں میں ناجاتی ہوجاتی تو بچوں کی شادی کے موقع پر معاملات ٹھیک کئے جاتے۔اب اس کی پرواہ کس کو نہیں دل میں یہ ہی فتور کہ ہم کسی کا کھاتے ہیں کیا پہلے شادی کے بعد بچے اپنی بیگمات کو اپنے بزرگ رشتہ داروں سے ملوانے گھر جاتے تھے۔اب اس کی ضرورت نہیں کہ سب کماتے ہیں سب کھاتے پیتے ہیں۔بچوں کی شادی کا اس طرح چھپاتے ہیں جیسے دوسرے کو پتہ چل گیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ لڑکے یا لڑکی کو بہکا کر اپنی طرف نہ کرے۔پرانے وقتوں میں یہ بھی ضروری تھاکہ سسرال والوں کو اپنے عزیزوں، بھائیوں اور بہنوں اور بزرگوں کی عزت کروائیں ان کا احترام کریں لیکن آج کے آئی فون دور میں دنیا سمٹ کر اور میران فون بن گئی ہے۔آئی فون پر ہی گروپ بنا کر شادی کے دعوت نامے دیئے جاتے ہیں۔ہر چند کہ جاننے والے چند میل کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہوں کچھ آدمیوں میں شعور نہیں ہوتا اور اب عورتوں میں بھی شعور ختم ہے رشتہ داریاں نبھانے کا۔البتہ اللہ رسول کے یہ لوگ بے حد قریب ہیں اور خود کو اچھا مسلمان سمجھتے ہیں اگر قسمت سے بچے قابل ہوجائیں تو گارنٹی اللہ ان پر مہربان ہے اتکاف میں بھی بیٹھتے ہیں عمرہ اور حج کی پابندی یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ان سب کے دلوں میں اپنے خون کے لئے کوئی جذبہ نہیں امڈتا۔ہمیں یاد ہے پاکستان بنا تھا اباجی نے پاکستانی میں اسلام اور ملک کے لئے ہجرت کی ریلوے میں تھے بڑے ٹھاٹ تھے ساتھ میں ہمارے دور کے دو چچا اور ایک ماموں زاد بھائی آئے تھے اور کچھ دور کے رشتہ دادر تھے۔جن میں کرکٹر نسیم الغنی کے والد، مزاحیہ شاعر کالم نگار جو بہت بعد میں پاکستان آئے تھے اورایک دور کے ماموں کے علاوہ ماموں زاد ہیں کے شوہر نے قریب اور دور کا خاندان تھا۔اور ایک دوسرے کے لئے عزت اور محبت دلوں میں تھی ایک تفصیل ہے لکھنے پر آئیں قلم نہ رکے اور صرف ملنے کے لئے پیدل چل کر سلام کرنے جاتے تھے۔اور کوئی مہمان بن کر آجاتا تو خوشی سے بھولے نہ سماتے۔بڑوں سے بچوں کا تعارف کرایا جاتا اور بڑوں کو بچوں کی تعلیم سے آگاہ کیا جاتا۔یہ تھا معاشرہ اور اسلام کے تحت تربیت ہم مانتے ہیں کہ اب سب کچھ ہتھیلی میں آئی فون کی شکل میں سکڑ گیا ہے۔ہم شاید آخری شہسوار ہیں جو ان باتوں پر اور نئی نسلوں کے رویوں کو دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ان کے خود غرف ریوں پر ایسا بھی نہیں کہ جانے کے بعد یہ ہمیں یاد رکھیں کہ ہم کیا کچھ کر گئے لیکن یہ مسئلہ سب کو درپیش ہے ہم اکیلے نہیں بچے اتنے مصروف ہیں کہ سلام دعا کے لئے وقت نہیں۔
اب بزرگوں کی طرف آئیں جو پچھلے کئی سالوں میں پاکستان سے ہجرت کرکے یہاں ریاستوں کے ہمان بن گئے ہیں۔ہم ویلی اسٹریم میں رہتے ہیں جہاں دو مساجد میں محمدی اور حمزہ مسجد، حمزہ مسجد میں جمعہ کے دو نمازیں ہوتی ہیں اور اطراف میں پھیلے پاکستانی بھاگم بھاک مسجد کی طرف پیدل اور کاریں اور ٹرک(SVV)دوڑاتے آتے ہیں یہاں پچھلے کئی جمعوں سے ان کے پارکنگ کے طریقوں سے لگتا ہے یہ آزادی کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ہمیں اس پر بھی یقین ہے کہ مسجد کی انتظامیہ اپنی بہترین کوششوں کے باوجود ان کے رویوں کو درست کرنے میں ناکام ہے۔اگر آپ پندرہ منٹ پہلے پہنچیں تو اطراف میں پارکنگ آسانی سے مل جاتی ہے لیکن ہر کوئی مسجد کی تنگ پارکنگ پلاٹ ہیں۔جہاں کم جگہ ہے اپنی کاروں کو اس طرح پھیلا دیتا ہے کہ نماز ختم ہوتے ہی بھگدڑ کا منظر ہوتا ہے کچھ لوگ اپنی کار جہاں جگہ ملے چھوڑ کر بھاگتے ہیں کہ دو رکعت فرض میں شامل ہوسکیں وہ عین ایک منٹ پہلے پہنچتے ہیں اور ضروری سمجھتے ہیں کہ راستہ بلاک کر دو کونس کیس کو جانے کی جلدی ہے خود دیر سے آتے ہیں اور دیر سے ہی آکر اپنی کار نکالتے ہیں اس سے غرض نہیں کہ انہوں نے دس دوسری کاروں کا راستہ بلاک کیا ہوا ہے۔پھرسب کے سب بے صبرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کے ایک دروازے پر تینوں اطراف سے کاروں کو آگے بڑھا کر پہلے نکلنے کا ارادہ کرتے ہیں انہیں اس کا بھی خیال نہیں ہوتا کہ متبادل(ALTERNATE)فیڈنگ کا خیال رکھیں ہر کوئی سمجھتا ہے اس کا حق ہے اور کچھ بزرگ اپنی ٹیکسی کو کار سے بالکل ملا کر چھوڑ کر ثواب کمانے آتے ہیں کہ آپ اپنی کار نکال کر نہیں سکتے ان کو کچھ کہیں تو جواب ملتا ہے کہ نماز نکل جاتی اگر پارکنگ ڈھونڈتا انکے ذہن میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ثواب کمانے اللہ کے حضور میں دس منٹ پہلے نکلیں اور یہ بزرگ سفید داڑھی والے ہیں جن کا احترام کرتا پڑتا ہے کہ آپ خوش رہیں نکالیں اپنی کار یہ چھوٹی سی بات ہے کاش ہم سب غور کریں کہ ایک اچھے انسان(بھول جائیں کہ آپ مسلمان ہیں)کے لئے کیا ضروری ہے۔کیا دوسروں کو ناراض کرکے تکلیف دے کر ہی ثواب کمایا جاسکتا ہے سوچیں!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here