زندہ قوموں کی ہوا کرتی ہے تصویر الگ!!!

0
122
جاوید رانا

قارئین کے ہمارے گزشتہ کالم سیاسی گُتھم گُتھا کو پسند کرنے اور پاکستان میں سیاست کے بے سمت رنگ ڈھنگ کی تصویر قرار دینے پر راقم الحروف ممنون ہے۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ وطن عزیز اور عالمی منظر نامے کو کسی لیپا پوتی کے بغیر صاف، کھرے انداز سے اپنے پڑھنے والوں تک پہنچائیں۔ پاکستانی سیاست میں دھینگا مُشتی یا ایک سیاسی جماعت یا ٹولے کا دوسرے ٹولے کو نیچا دکھانے کا تماشہ حسب معمول جاری ہے تو عالمی منظر نامے میں بھی سپر میسی کی اعصابی و نفسیاتی محاذ آرائی کا تسلسل ہے۔ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ و یورپی یونین اور دوسری جانب روس چین کے درمیان جہاں ایک طرف معاشی برتری کے جھگڑے واضح ہیں، وہیں یوکرائن کے حوالے سے سیاسی محاذ آرائی بلکہ حربی معاملات تک بات پہنچ گئی ہے۔ اس محاذ آرائی میں تیسری دنیا کی پاکستان جیسی مملکتوں کیلئے بڑی دُشواری ہے کہ وہ ان معاملات میں غیر جانبدار رہیں یا کسی جانبداری میں ملوث ہوں۔ ایسے ممالک نہ امریکہ جیسی مقتدر سپر پاور کی مخالفت مول لے سکتے ہیں اور نہ ہی چین و روس سے کنارہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان کیلئے تو یہ اور بھی مشکل ہے کہ ایک جانب آئی ایم ایف، فیٹف اور دیگر عالمی و مالی اداروں سے گوٹ پھنسی ہوئی ہے جو امریکی انتظامیہ کے تابع و مطیع ہیں تو دوسری جانب چین جیسا پرانا دوست ہے جو ہمیشہ پاکستان کیساتھ کھڑا رہا ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں ہے، پاکستان کا بدترین دُشمن بھارت بھی امریکہ کی آنکھ کا تارہ بنا ہوا ہے۔ ان تمام تر حالات میں پاکستان کے داخلی، سیاسی اور خارجی معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے سیاسی، حکومتی، ریاستی طبقات اپنے آپس کے اختلافات سے بالاتر ہو کر قومی اجتماعی مفادات پر اکٹھے ہوں لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ” حکومت اور اپوزیشن کے وہی مخالفانہ اور الزام جواب الزام کے سلسلے جاری ہیں۔ امن و امان کی صورتحال جو ہماری عسکری قوتوں کے باعث قابو میں آئی تھی بے لگام ہو رہی ہے۔ دہشتگردی نے سر اٹھایا ہوا ہے۔ شہروں اور سرحدی علاقوں نیز سرحد پار سے دہشت گردی کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور نہ صرف شہری بلکہ ہمارے وطن کے رکھوالوں کی شہادتیں ہمیں خون کے آنسو رُلا رہی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں اور سیاسی مخالفین اپنے مفادات کے طوفان میں لن ترانیوں، الزام تراشیوں، دعویداریوں پر ہی کمر بستہ ہیں۔ ہفتہ رفتہ میں بلوچستان، پختونخواہ اور مغربی سرحد پر دہشتگردی میں درجنوں قوم کے بیٹے جام شہادت نوش کر چکے ہیں ہماری عسکری افواج دہشتگردوں کا قلع قمر کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں مگر سیاسی اشرافیہ (حکومتی و مخالف) ان حالات سے صرف نظر کر کے اپنے سیاسی جھگڑوں سے باہر نہیں نکل رہی ہے۔ شریفوں اور زرداریوں کی سیاست عمران خان کو حکومت سے نکالنے کیلئے طرح طرح کے پینترے اختیار کرنے پر ہیں جبکہ کپتان اور کھلاڑی مخالفین کو گندا کرنے کیلئے نت نئے منصوبوں اور لائحہ عمل پر اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ لاء اینڈ آرڈر میں بہتری آرہی ہے، نہ گورننس اور انتظامی امور پر قابو ہے اور نہ ہی عوام کی مشکلات میں کمی آرہی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں وطن عزیز کی سلامتی سے کھیلنے پر دوبارہ عمل پذیر ہیں، حالیہ واقعات میں ٹی ٹی پی اور بی آر اے نے دہشتگردی کی علی الاعلان ذمہ داری قبول کی ہے اور یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ ان تنظیموں کی سرپرستی بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” افغان این ڈی ایس اور ایران کی بعض قوتیں کر رہی ہیں، ہمارے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی احتجاجوں اور ڈوزئیرز تک محدود ہیں، اپوزیشن کو بھی صورتحال کا کوئی احساس نہیں اور ان کی سوئی احتجاجوں، مارچوں اور عدم اعتماد کی ترکیبوں پر اٹکی ہوئی ہے۔ بے حسی اور خود غرضی کی اس سے بدتر مثال کیا ہو سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کو جن حالات کا سامنا ہے وہ روٹین یا معمول کی بات نہیں ہے، حالیہ بین الاقوامی منظر نامے میں پاکستان جیسے ممالک پر دبائو ڈالنے کیلئے عالمی مقتدر قوتیں وہ سارے اقدامات کرتی ہیں جو ان ممالک کو ان قوتوں کی جھولی میں لا ڈالیں، اس مقصد کیلئے معاشی، معاشرتی اور جنگجویانہ و حربی طریقوں سے ممالک و اقوام کو دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ الحمد اللہ پاکستان ایک نیوکلیائی و نظریاتی ریاست اور دنیا کی بہترین عسکری و افرادی قوت کا حامل ملک ہے اور جنگوں یا باغیانہ تحریکوں سے نہ اسے معتوب کیا جا سکتا ہے نہ کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے لہٰذا دشمنوں کی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اسے اندر سے سازشوں اور عوامی انتشار کے ذریعے کمزور کیا جائے اور بیرونی طور پر اس کے امیج کو زیادہ سے زیادہ خراب پیش کیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری داخلی اور خارجی پالیسیاں پاکستان کی سلامتی، خوشحالی اور بیرونی دنیا میں روشن چہرے کی عکاس ہیں۔ کیا ہماری سیاسی اشرافیہ اور عوام کی سوچ ایک قوم کا منظر پیش کرتی ہے، کیا ہماری وزارت خارجہ اور سفارتی مشن پاکستان کا روشن و مثبت تاثر پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔ پاکستان کا سب سے اہم ترین ایشو ہماری شہہ رگ مقبوضہ کشمیر ہے، ہم ہر سال یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔ اس سال بھی ملک میں اور دنیا بھر میں یوم کشمیر منایا گیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور میں یکجہتی کیلئے شریک افراد کی تعداد ہزاروں میں بھی نہیں تھی جبکہ یہاں کے سفارتی مشنز میں شرکاء کی تعداد محدودے درجن بھر افراد پر مشتمل تھی۔ ہماری یکجہتی محض اخلاقی، اصولی و سفارتی تک تقریروں دستاویزی فلموں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ ہمیں مزید کچھ نہیں کہنا بھارتی حکومت کے کشمیریوں پر مظالم، غاصبانہ قبضے، مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے، ہندی کو کشمیر کی قومی زبان بنانے کے اقدامات کے مقابلے میں محض تقاریر، ڈوزئیر مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ 74 سال کی بھارتی بربریت کا حل نہ اقوام متحدہ کر سکتا ہے، نہ ہی امریکہ اس کی فکر کرے گا اور نہ کسی حقوق انسانیت کے ادارے کو اس کی توفیق ہوگی۔ ہم یقیناً جنگ و جدل تو نہیں کر سکتے لیکن احتجاج اور اقوام عالم کو جگانے کے مربوط اور متحد عمل تو کر سکتے ہیں۔ سکھ برادری کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ خالصتان کیلئے ان کے مظاہروں نے نہ صرف مودی حکومت کو ہلا دیا بلکہ یورپی پارلیمنٹ میں اس حوالے سے سخت قرارداد اور مودی حکومت سے مطالبہ ماننے پر زور دیا گیا۔ ہم تو یہ بھی نہ کر سکے کہ اسلام آباد میں او آئی سی اجلاس میں مذمتی قرارداد بھی پاس ہی کراسکتے۔ ان حالات و واقعات میں یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاسی آکابرین قوم کے رہنما ہیں نہ عوام ایک قوم ہیں، ہم 22 کروڑ کا ہجوم ہیں جو خود کو قوم اور جہاں رہتے ہیں اسے وطن کہتے ہیں۔ کاش ہم اپنے آپ کو قوم کی شناخت دے سکیں۔ ملک و قوم کی ترقی نظام سے نہیں یگانت اور اتفاق سے ہوتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here