امریکی رکن کانگرس الہان عمر ایسے وقت پاکستان آئیں جب عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے کر بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ الہان عمر 1982 میں پیدا ہوئیں۔2019 میں انہیں منی سوٹا سے کانگرس کی رکن منتخب کیا گیا۔وہ ڈیمو کریٹک فارمر۔لیبر پارٹی کی رکن ہیں۔کانگرس کی رکن منتخب ہونے سے قبل الہان ریاست منی سوٹا کے ایوان نمائندگان کی دو سال تک رکن رہی ہیں۔الہان کانگرس میں ترقی پسند گروپ کی سربراہ ہیں۔ان کا مطالبہ رہا ہے کہ کم از کم اجرت 16ڈالر کی جائے۔طلبا کے قرض معاف کئے جائیں یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کا قانون ختم کیا جائے۔الہان عمر اپنے سیاسی کیریئر کی ابتدا سے اسرائیل کی نقاد رہی ہیں۔انہوں نے اسرائیل کے بائیکاٹ اور اس پر پابندیوں کی تحریک کی حمایت کی۔فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی مخالفت کی اور فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی مذمت کی۔الہان پہلی صومالی امریکی رکن کانگرس ہیں۔وہ پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جس نے منی سوٹا کی نمائندگی کی۔کانگرس میں راشدہ طالب کے ساتھ وہ دوسری مسلمان خاتون رکن ہیں۔ الہان عمر صومالیہ میں پیدا ہوئیں۔سات بہن بھائیوں میں سے وہ سب سے چھوٹی ہیں۔ان کے والد نور عمر محمد صومالی فوج میں کرنل تھے۔الہان کی والدہ فادومہ حسین یمنی نژاد تھیں اور الہان کو دو برس کی عمر میں ان کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔الہان کی پرورش ان کے والد اور دادا نے سنی عقائد کے مطابق کی۔صومالیہ کی خانہ جنگی کے دوران الہان کا خاندان چار سال کینیا کے ایک کیمپ میں رہا۔1995 میں امریکہ نے خاندان کو سیاسی پناہ دی۔منی پولس میں الہان کے والد نے ٹیکسی چلانا شروع کی۔والد اور دادا نے انہیں ہمیشہ جمہوریت کی اہمیت سے آگاہ کیا۔14برس کی عمر میں الہان اپنے دادا کے ساتھ مترجم کے طور پر مختلف اجلاسوں میں جانے لگیں۔انہوں نے سکول میں بچوں کو تنگ کرنے اور حجاب کے معاملے پر بات کرنا شروع کی۔الہان کو سن 2000 میں امریکی شہریت ملی۔تب ان کی عمر 17سال تھی۔انہوں نے پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل سٹڈیز میں گریجوایشن کر رکھی ہے۔ 4فروری 2014 کو منی سوٹا میں ایک اجلاس کے دوران الہان عمر پر قاتلانہ حملہ ہوا کئی زخم آئے۔فروری 2019 میں امریکی کوسٹ گارڈز کے لیفٹننٹ کرسٹوفر کو الہان کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔کرسٹوفر نسل پرست سفید فام تھا۔اپریل 2019 میں پیٹرک جونیئر نامی شخص الہان کو فون پر قتل کی دھمکی دینے پر گرفتار ہوا۔پیٹرک امریکی سرزمین سے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا تھا۔الہان عمر نے جب صدر ٹرمپ کے اپنے بارے اور نائن الیون کے واقعہ کے متعلق بیانات پر رائے دینا شروع کی تو الہان کو بے شمار دھمکیاں ملنے لگیں۔ٹرمپ نے الزام لگایا کہ الہان نے نائن الیون واقعہ پر جشن منایا تھا۔اس سے الہان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ٹرمپ نے 2019 میں ایک ٹویٹ میں الہان اور دیگر 3افریقی النسل خواتین ارکان کانگرس کو اپنے آبائی ملکوں کو واپس جانے کا کہاٹرمپ نے بطور صدر ایک ٹویٹ میں الہان کو القاعدہ کی حامی قرار دیا۔الہان دو ناکام شادیوں کے بعد تیسری بار گھر آبادکر چکی ہیں۔
الہان عمر نے صدر مملکت عارف علوی وزیر اعظم شہباز شریف اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے ملاقاتیں کی ہیں۔الہان عمر نے ایک خصوصی ملاقات عمران خان سے کی۔یہ ملاقات سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ایک حکومتی بندے نے تو اس کی تحقیقات کرانے کا بیان تک جاری کر دیا ہے ۔بتایا گیا ہے کہ الہان عمر نے اسلامو فوبیا پر عمران خان اور ان کی جماعت کے موقف کی تعریف کی۔الہان عمر صومالین نژاد امریکی ہیں۔ماضی میں انہوں نے امریکی سماج میں افریقی اور مسلم برادریوں کے لئے متعدد بار آواز بلند کی۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور الہان عمر کے درمیان مسلسل نوک جھونک چلتی رہی۔الہان عمر نے شائد ہی کبھی پاکستان کے متعلق کوئی بیان جاری کیا ہو اس لئے ان کی پاکستان آمد اور حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ عمران خان سے ملاقات کو کئی پہلو سے دیکھا جا رہا ہے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ الہان عمر کا دورہ نجی نوعیت کا ہے اور اس کا انتظام الہان عمر کے دفتر نے امریکہ میں مقیم ایک پاکستان کاروباری شخصیت کی مدد سے کیا،کاروباری شخصیت ہیوسٹن کے طاہر جاوید ہیںجو ڈیموکریٹک لیڈر ہیں۔
الہان کے دورہ پاکستان سے دو روز پہلے امریکہ نے پاکستان کے لئے 300 ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد کا اعلان کیا۔الہان کا دورہ خالصتا نجی سمجھا جائے تو پھر صدر مملکت اور وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی۔اسے یوں دیکھ لیں کہ انہوں نے تین بڑی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔پیپلز پارٹی کے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اورمسلم لیگ ن کے صدر و وزیر اعظم شہباز شریف اور عوامی مقبولیت کی لہر پر سوار پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے مل کر انہوں نے صرف اسلامو فوبیا پر بات نہیں کی۔الہان ایک افریقی النسل مسلمان ہونے کے ساتھ امریکی شہری ہیں۔ وہ امریکی نظام سیاست کی بین الاقوامی جہتوں سے اس لئے جڑی ہوئی ہیں کہ ان کی ساری جدوجہد میں اسلاممسلمان ،سیاہ فام اور خواتین کے حقوق نمایاں ہیں۔ عوام کی جانب سے مینڈیٹ ملنے پر انہیں اقتدار انہی آپشنز کو سامنے رکھ کر منتقل کیا جائے گا۔الہان عمر کے دورے کی حد تک پاک امریکہ تعلقات میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ پوری بات تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں جن سے الہان عمر کی ملاقات ہوئی لیکن حکومتی خاموشی اور عمران خان کے جلسہ لاہور میں امریکہ کا نام لینے کی بجائے امپورٹڈ حکومت کے الفاظ استعمال کرنا بتاتا ہے کہ امریکہ موجودہ سیاسی نظام میں اپنے اثرورسوخ کو ایک بار پھر یقینی بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس بار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی ایک حقیقت پسندانہ درجے پر امریکہ کے ساتھ تعلقات پر متفق ہو رہے ہیں۔امریکہ سے دشمنی اچھی نہ دوستی۔حالات اشارہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کے سامنے آپشن رکھ دیے گئے ہیں۔
٭٭٭