رہائی دے بھی اب اس عہدِ کربلا سے مجھے!!!

0
118
اوریا مقبول جان

کربلا اور سیدنا امام حسین علیہ السلام، گزشتہ چودہ سو سال سے پوری امت کے لیے طاغوت کے خلاف مظلوم کی صدائے بلند کا ایک ایسا استعارہ ہیں کہ نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پورے عالمی ادب میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ سقراط کا زہر کا پیالہ، سیدنا عیسی علیہ السلام کی صلیب اور سیدنا امام حسین کا میدانِ کربلا، یہ تینوں تشبیہات دنیا بھر کی تحریروں میں بظاہر ظلم برداشت کر کے، اس وقتی شکست کے باوجود بھی، رہتی دنیا تک جیت کی علامت ہیں۔ اس پوری کیفیت کو میرے مرحوم دوست اور اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر، عدیم ہاشمی نے جس طرح جدید دور کے تناظر میں ان دو اشعار میں بیان کیا ہے، وہی کربلا کا اصل درس اور سیدنا امام حسین کی قربانی کا اصل جوہر ہے: مفاہمت نہ سکھا، جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے میں سر سجدہ ہوں اے شمر مجھ کو قتل بھی کر رہائی دے بھی اب اس عہدِ کربلا سے مجھے نثر میں، اسی پیغام کی انقلابی روح کو جس شخصیت نے پیش کیا ہے وہ ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی تھے۔ ایران کا انقلاب جن دو شخصیتوں کے افکار اور اشعار کا مرہونِ منت ہے وہ علامہ اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی ہیں۔ علامہ اقبال کی وہ نظم جو جلوسوں میں جوش دلانے کے لیے پڑھی جاتی تھی، اس نظم کے آخری دو اشعار بلا کا جوش و جذبہ لیے ہوتے ہیں: می رسد مردے کہ زنجیرِ غلاماں بشکند دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما وہ مرد آ رہا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑ کر انہیں رہائی دلائے گا۔ میں نے تمہارے زندان کے روشن دان سے اسے دیکھا ہے۔ حلقہ گرد من زنید اے پیکرانِ آب و گل آتشِ در سینہ دارم از نیاگانِ شما اے آب و گل کے بنے ہوئے لوگو! آئو میرے گرد حلقہ بنائو، میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے لی ہے۔ مردہ ایرانی قوم جسے مصلحت کی لوریاں دے کر صدیوں پالا گیا تھا عموما یہ محاورہ ان کے ہاں زبان زدِ عام تھا زمانہ باتونہ ساز دتو با زمانہ بساز جس کا مطلب ہے کہ اگر زمانہ تمہارے ساتھ نہیں چلتا تو تم زمانے سے صلح جوئی اختیار کرو۔ لیکن ایرانی کہتے ہیں کہ اقبال نے ہمارا محاورہ یوں بدل دیا زمانہ باتونہ ساز دتو باز مانہ ستیز یعنی زمانہ اگر تمہارے ساتھ نہیں چلتا تو زمانے سے جنگ کر۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے اقبال کے عطا کردہ اس محاورے کو کربلا کا اصل حاصل قرار دیا ہے۔ تہران میں اپنے ادارے حسینہ ارشاد اسلامی انسٹیٹیوٹ میں ستمبر 1972 کو انہوں نے ایک لیکچر دیا، جس کا عنوان انہوں نے سرخ شیعت رکھا۔ اس لیکچر میں انہوں نے دو اصطلاحات استعمال کیں تشیع علوی اور تشیع صفوی ان کے نزدیک تشیع علوی دراصل طاغوت اور باطل کے سامنے قیام اور کھڑے ہونے کا نام ہے، اسی لیے اس تشیع کا رنگ انقلابی یعنی سرخ ہے۔ لیکن تشیع صفوی گریہ و ماتم اور خاموشی و صبر ہے، اسی لیے اس کا رنگ پژمردگی والا یعنی سیاہ ہے۔ ڈاکٹر شریعتی بلا کے مصنف تھے۔ بظاہر ایک مغربی تعلیم سے آراستہ شخص لیکن اسلام کے انقلابی پیغام کا داعی۔ مشہد سے تھوڑی دور سبزوار کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے، اس کے گائوں فرنیان میں 1933 میں پیدا ہوئے۔ مشہد یونیورسٹی کے شعبہ ادب سے بی اے کیا، پڑھائی کے دوران ہی ایک مقالہ من کدا می ہستم لکھا اور والد، والدہ سمیت قزل قلعہ کی جیل میں چھ ماہ قید کاٹی۔ رہائی کے بعد اعلی تعلیم کے لیے فرانس چلے گئے، بے چین روح کو قرار کہاں، الجزائر کی تحریکِ آزادی میں حصہ لیا اور پیرس میں بھی گرفتار کر لیے گئے۔ جیل سے ان کا انٹرویو آج بھی ایک مقالے کی صورت فرانسیسی ادب میں ملتا ہے۔ پی ایچ ڈی کر کے واپس لوٹے تو ترکی کی سرحد پر گرفتار کر لیے گئے اور پھر اسی قزل قلعہ کی جیل میں کئی ماہ گزارنا پڑے۔ رہائی پر ایک سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ بمشکل تمام مشہد یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری ملی تو ایران کی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں انقلابی فکر پر مبنی تقریریں کرنے لگے۔ یہ چھ سال کا عرصہ (1967 سے 1973ء) ان کی زندگی کا انتہائی ثمر آور عرصہ تھا۔ اس کے بعد، ان کے ادارے حسینہ ارشاد کو بند کر دیا گیا اور خفیہ ایجنسی ساواک کے لوگ ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، نہ ملے تو بوڑھے والد کو گرفتار کر لیا گیا۔ شریعتی نے والد کی ناحق گرفتاری پر اپنی گرفتاری دے دی۔ انہیں بدنامِ زمانہ کومیتاہ جیل میں بند کر دیا گیا جو شاہ ایران نے ہٹلر کی داکائو جیل کی طرز پر بنائی تھی۔ ڈیڑھ سال بعداذیتوں والی جیل سے رہا ہوئے تو مشہد میں رہائش اختیار کر لی۔ اب شریعتی کو سننے والے دن کی بجائے رات کو خفیہ مقام پر اکٹھا ہوتے تاکہ کہیں ساواک کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ آخر تنگ آ کر جلاوطنی اختیار کرنے کے لیے یورپ روانہ ہو گئے، 16جون، 1977 کو بھیس بدل کر لندن میں داخل ہو رہے تھے کہ ساواک نے ایم آئی 6 کی مدد سے انہیں شہید کر دیا۔ کربلا کی روح کا امین، دمشق میں سیدہ زینب کے مقبرے کے ساتھ قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ ایرانی معاشرہ جسے صدیوں سے شہنشاہیت کی لوریاں دے کر سلایا گیا تھا۔ جہاں تصنع اور برصغیر کے لکھنوی آداب جیسا چال چلن مدتوں سے رواج پذیر تھا، بلکہ لکھنو کی پرتکلف اور شاہ پرست تہذیب تو دراصل ایران ہی سے یہاں برآمد ہوئی تھی۔ ایسے مدح پسند قسم کے ایرانی معاشرے میں انقلابی روح پھونکنا بہت مشکل کام تھا۔ کربلا کا استعارہ تو موجود تھا، لیکن اسے بھی منبر و محراب کے امین مراجع نے امام مہدی کی آمد کے انتظار میں صرف ایک خواہش بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس استعارے کو زندہ کرنے میں جتنا بڑا کردار ڈاکٹر شریعتی کی تحریروں اور آیت اللہ خمینی کی جاندار اور پرشکوہ قیادت کا ہے، اس سے کہیں زیادہ کردار شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی دہشت والی بادشاہت کا بھی ہے۔ 19 اگست 1953 کو جب ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کو امریکہ نے پارلیمنٹ کے ارکان کی وفاداریاں خرید کر رجیم چینج کے اصول کے تحت تبدیل کر کے رضا شاہ پہلوی کو تخت پر بٹھایا تھا تو ساتھ ہی امریکی سی آئی اے نے پوری قوت سے ایران میں اٹھنے والی ہر آواز کو شاہ کی سات لاکھ فوج اور ظلم و دہشت کی تربیت یافتہ خفیہ ایجنسی ساواک نے مدرسے کچلنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ لیکن پھر جب پوری ایرانی قوم نے قیام کیا اور طاغوت کے خلاف سیدنا امام حسین کا پرچم لے کر اٹھی تو پھر کوئی طاقت و قوت ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ دنیا بھر کی انٹیلیجنس ایجنسیاں جن میں امریکی سی آئی اے، ایم آئی سکس یہاں تک کہ اسرائیل کی موساد بھی شامل تھی، ایسے لاڈلے اور خطے میں امریکی پہرے دار شاہ رضا شاہ کے بچائو کی مہم پر سرگرم ہو گئیں، مگر وہ جذبہ اور وہ روح جو اقبال کے اشعار نے ایرانی قوم میں پھونکی تھی اور جسے شریعتی کی تحریروں نے زندہ کیا اور آیت اللہ خمینی کی تقریروں نے جان بخشی وہ اصل میں کربلا سے کشید کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انقلاب کا پیش خیمہ بن گئی۔ اقبال کا ماتم تو میرے ملک کے بارے میں بھی ویسا ہی ہے: قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات !
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here