کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!!!

0
88
جاوید رانا

پاکستان کے سابق صدر، آرمی چیف، جوائنٹس چیف جنرل پرویز مشرف طویل علالت کے بعد دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ رب العزت ان کی بخشش و مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علین میں جگہ مرحمت فرمائے۔ 65ء و 71ء کی جنگوں میں حصہ لینے والے، SSG سے منسلک رہنے والے پرویز مشرف کا سب سے مثبت پہلو نڈر و بیباک ہونا تھا۔ مغربی میڈیا ہو یا بھارتی حکومت کے بھونپو، پرویز مشرف کا منہ توڑ جواب اور بیانیہ و استدلال مخالفین کو لاجواب کر دیتا تھا۔ مرحوم کے بھائی ڈاکٹر نوید اشرف یہاں گزشتہ کئی عشروں سے مقیم ہیں، پرویز مشرف کے انتقال پر ہم ڈاکٹر نوید اشرف و افراد خاندان سے اظہار تعزیت کرتے اور صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔ پرویز مشرف جب شکاگو آئے تو راقم الحروف سے نہایت محبت و ملنساری سے ملے اور مختلف سیاسی و قومی امور پر سیر حاصل گفتگو کی، بہت سے امور بشمول کارگل، طیارہ ایشو و بلدیاتی انتخابات پر وضاحت کی۔ سچ تو یہ ہے کہ پرویز مشرف کے ہمراہ میرے دفتر میں آویزاں تصویر مرحوم سے میرے تعلق اور ان کی خوبصورت شخصیت کی حسین یادگار ہے۔ مرحوم کیلئے میری دعا ہے!
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
پرویز مشرف کی تدفین فوجی اعزاز و تکریم کیساتھ عمل میں آئی لیکن ہمارے میڈیا و سیاسی اشرافیہ نے مرحوم کے حوالے سے اظہار اور کردار سے جو رویہ و بیانیہ اختیار کیا، اس نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ ان کی فطرت میں بُغض، کینہ اور نفرت کا گند کس حد تک سرایت کر چکا ہے، حُکم تو یہ ہے کہ بدترین دشمن کی موت پر بھی اس کے حوالے سے کوئی منفی جملہ یا اظہار نہ کیا جائے بلکہ خوبیاں بیان کی جائیں۔ افسوس کیساتھ کہناپڑتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور میڈیا نے اپنی روش کی بنیاد ہی منفی بیانیہ و استدلال پر رکھی ہوئی ہے، مخالفت و لعن طعن کو اپنا مطمع نظر بنا کر پورے معاشرے کو اس حد تک نفرت زدہ بنا دیا ہے کہ گھر سے قوم تک دشمنی کی جڑیں زندہ لوگوں کو تو کجا مرحومین کو بھی ہدف ملامت بنانے سے کوئی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کمینگی اور ذلالت کیا ہو سکتی ہے کہ سینیٹ میں مرحوم پرویز مشرف کے ایصال ثواب پر موجودہ حکومتی گٹھ نے محض بُغض معاویہ میں مخالفانہ رویہ اختیار کیا اور پی ٹی آئی کی تحریک مغفرت کو غتربودکرنے کا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونیوالے ملک کے ایوان بالا میں موجود اشرافیہ کا یہ اقدام و عمل نہ دینی حوالے سے قبول ہے اور نہ ہی انسانی اقدار کے ناطے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دین کی داعی جماعت اسلامی بھی اس بد عملی میں حکومتی شیطانوں کے کھیل میں شامل نظر آئی۔
حکومتی شیطنیت کا سیاسی کھیل مخالف سیاسی اشرافیہ خصوصاً پی ٹی آئی کیخلاف جس شد و مد اور ظالمانہ طریقے سے جاری ہے وہ نہ صرف قوم اور ملک کے استحکام کیلئے الارمنگ ہے بلکہ معاشرے میں ذہنی و اخلاقی پراگندگی و نفرت اور انتشار کا نقیب بن رہا ہے۔ سیاسی حوالوں سے ظلم و استبداد، قید و بند اور سیاسی مخالفین پر زندگی تنگ کئے جانے کیساتھ عوام پر معاشی ناہمواریوں کی تفصیل تو آپ تک پہنچ رہی ہے، جس کی بنیاد پر خواتین کی بے حُرمتی آبرو ریزی کے واقعات ہماری معاشرتی برائیوں کا آئینہ ہیں۔ پارکوں، بسوں حتیٰ کہ گھروں میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ حکومتی، انتظامی و امن و امان کے ادارے سیاسی محاذ آرائی کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب دہشتگردی کا طوفان سر اٹھائے ہوئے ہے۔ اس تمام تر صورتحال نے ملک کو جس صورتحال سے دوچار کر دیا ہے وہ کسی بھی طرح ایک بہتر معاشرے یا ملک کی تصویر نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان حالات کو جانتے ہوئے بھی ہماری سیاسی اشرافیہ ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ اپنے مفادات و اغراض کی تکمیل اور اقتدار کے حصول و تسلسل کیلئے سیاست کو اس حد تک غلیظ کر دیا گیا ہے کہ مخالفین سے دشمنی کی آخری حدوں تک جانے کیساتھ اندر خانہ بھی تقسیم، اختلاف، اور تضحیک کا کھیل جاری رہتا ہے۔ موروثیت کے تسلسل کیلئے اپنی ہی صفوں میں موجود سینیئرز اور مخلص ساتھیوں کو نظر انداز کر کے انہیں عفو معطل بنا دیا جاتا ہے، تادیبی کارروائیاں کی جاتی ہیں یہاں تک کہ یا تو انہیں تنظیم سے نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود بد دل ہو کر علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ حق اور جمہور کی آواز اٹھانے پراندہ درگاہ بنا دیئے جاتے ہیں۔ حالیہ مقتدرین کی مرکزی جماعت مسلم لیگ ن میں مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، خواجہ سعد رفیق اور سینیٹ میں سچ کہنے پر مشاہد حسین شکار ہوئے، پیپلزپارٹی میں مصطفی نواز کھوکھر، اعتزاز احسن، رضا ربانی بھی سچ اور حق پر متاثر ہوئے۔ انجام کیا ہونا ہے سوائے انتشار و عدم استحکام کے۔ دوسری جانب برآمدی حکومت کے مسلسل پی ٹی آئی کیخلاف ظلم و ستم، گرفتاریوں، عوام پر معاشی بوجھ ڈالنے اور شکست کے خوف سے انتخابات سے انحراف سے تنگ آکر عمران خان کے جیل بھرو تحریک کے اعلان نے وطن عزیز میں مزید عدم استحکام و مشکلات کی نوید سامنے رکھ دی ہے۔ ملک بھر کی 116 جیلوں میں 63ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے فی الوقت 88 ہزار قیدی جیلوں میں ہیں، جیل بھرو تحریک کے 22 لاکھوں افراد کی اجتماعیت سے جو صورتحال سامنے آنے کا خدشہ متوقع ہے وہ امن و امان، حکومت و ریاست اور ملک کیلئے کسی بھی طور سے بہتر نہیں ہو سکتا ہے اور مزید انتشار و ریخت کا مظہر ہو سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تمام حالات میں وطن عزیز کی سلامتی اور عوام کے سکون و چین کیلئے ہمارے سیاسی قائدین اپنے روئیوں اور کردار پر نظر ثانی کر سکتے ہیں یا پھر مفاداتی ترجیحات، ایک دوسرے کی مخالفت، منفی اقدامات و منکرانہ حرکات کا یہ کھیل یونہی جاری رہے گا اور انتشار و بربادی میں اضافہ ہی جاری رہے گا۔ اقبال کے الفاظ میں ”کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں”۔ اللہ رب العزت میرے دیست کو محفوظ اور شاد باد رکھے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here