محترم قارئین! مختلف اوقات میں بہت سے بزرگان دین نے تقویٰ اختیار کیا اور انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اس مختصر سے آرٹیکل میں چند بزرگان دین رضی اللہ عنھم کا ذکر خیر کرتے ہیں تاکہ ان کے فیض کے سمندر سے ہمیں بھی کچھ حصہ حاصل ہوجائے اور غیرت ایمان ہمیں بھی حاصل ہوجائے۔ اور دنیا کی محبت جس نے ہمیں اپنے اندر مگن کرکے شریعت مطھرہ چھڑا دی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس موذی مرض سے چھٹکارہ عطا فرما دے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کی کمائی کا دودھ پی لیا۔ آپ نے دودھ پینے کے بعد دودھ کے بارے میں دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا تھا تو اس نے کہا کہ میں نے ایک قوم کے لئے کہانت(جھاڑ پھونک) کی تھی تو انہوں نے مجھے دودھ دیا تھا آپ نے اپنے منہ میں انگلی ڈال کر قے کرنا شروع کی یہاں تک کہ غلام کو خیال ہوا کہ آپ کا دم نکل جائے گا۔ پھر آپ نے عرض کہ الٰہی میں تیرے سامنے عذر کرتا ہوں اس دودھ سے جو رگوں اور آنتوں میں رس بس گیا ہے(احیاء العلوم) بس جسے حرام سمجھا اسے اپنے پیٹ میں رکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ تو آج حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز کے بغیر ہم صبح وشام مال جمع کرنے پہ لگے ہوئے ہیں۔ بس عبرت کا مقام ہے سوچنے اور عمل کرنے کا وقت ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زکواة کی اونٹنی کا دودھ پی لیا۔ معلوم ہونے پر حلق میں انگلی ڈال کر قے کردیا۔(ایضاً) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے اور دارالخلافہ کے لٹ جانے کے بعد جو غذا کھائی تو اس پر اپنی مہر دیکھ لیتے تھے تاکہ شبیہ مال سے محفوظ رہیں۔(ایضاً) یہ عظیم تقویٰ کی مثالیں ہیں، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ میرے آقا تاجدار مدینہۖ ارشاد فرما رہے یں کہ بندہ پرہیز گاروں میں سے ہونے کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا حتٰی کہ مضائقہ والی چیزوں سے ڈرتے ہوئے غیر مضائقہ والی چیزوں کو چھوڑ دے اور شبہ والے مال کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کے بارے میں یقین تو نہ ہو بلکہ ظن غالب ہو کہ غیر کی ملکیت ہے اسی چیز مشتبہ ہے اور ہمارے اسلاف رحمتہ اللہ علیھم شبیہ والے مال سے ضرور بچتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مال غنیمت میں سے خوشبو پیش کی گئی تو انہوں نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا اور فرمایا کہ اس کی خوشبو سے ہی فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ میں دوسرے مسلمانوں کے بغیر تنہا اس کی خوشبو سونگھوں(ارسالہ فشیریہ) امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بے مثال تقویٰ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار کوفہ میں کچھ بکریاں چوری ہوگئیں تو آپ نے دریافت کیا کہ بکری زیادہ سے زیادہ کتنے سال زندہ رہتی ہے، تو لوگوں نے بتایا کہ سات سال زندہ رہتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے سات سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا(کہ کہیں چوری کی بکری کا گوشت انجانے میں اندر نہ چلا جائے) انہی دنوں آپ رضی اللہ عنہ نے ایک فوجی کو دیکھا کہ اس نے گوشت کھا کر اس کا فضلہ کوفہ کی نہر میں پھینک دیا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے مچھلی کی طبعی عمر کے بارے میں دریافت کیا اور پھر اتنے سال تک مچھلی کے گوشت سے پرہیز کیا۔ اس خوف سے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے فوجی کو بکری کا گوشت کھانے کے بعد اس کی ہڈیاں وغیرہ دریا میں ڈالتے دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ کی یہ باریک بینی کہ اگر وہ بکری جو فوج نے کھائی چوری کی ہو اور چوری کی بکری کی ہڈیاں دریا میں ڈالنے کے بعد مچھلی کھائے گی تو مچھلی کو بھی چھوڑ دو کہ کہیں وہ چوری کی بکریوں کی ہڈیوں کا اثر مچھلی کے ذریعے میرے بدن میں نہ چلا جائے۔
حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ جو وقت کے ولیوں کے سردار تھے ایک دن آپ نے ہمدان سے بیج خریدے اور واپس اپنے شہر سطام میں آگئے۔ بیج والا تھیلا کھولا تو دیکھا کہ اس میں تو دو چیونٹیاں ہیں آپ رضی اللہ عنہ فوراً بسطام سے ہمدان گئے اور ان چیونٹیوں کو واپس اسی دکان میں دیکر آئے جس سے آپ نے بیج خریدے تھے۔ اس خوف سے کہ وہ چیونٹیاں جو میرے مال میں زیادہ آگئیں وہ حرام اور سود نہ ہوجائیں۔ حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ مستفتی یعنی فتویٰ لینے والے سے ہدیہ قبول نہ فرماتے کہ کہیں یہ پھر یہ رشوت بن کر میرے مال کو خراجانہ کردے اسی طرح حضور محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کا طریقہ کار بھی یہی رہا ہے۔ مسجد اور مدرسہ کے حساب کو ہمیشہ جدا رکھا اور مسجد اور مدرسہ کا پیسہ اپنی جیب میں بھی نہ رکھتے کہ کہیں نوٹ نہ تبدیل ہوجائیں حضور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے بیسیویں سفر غیر ممالک میں کئے باہر جاکر آپ گوشت کھانے سے مکمل پرہیز کرتے کہ ذبح کیسا کیا ہونہ جانے ایسے ہی چھری پھیری گئی ہو۔ حضور قائد ملت اسلامیہ پیرطریقت رہبر شریعت سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان دامت برکاتھم العالیہ کا معمول بھی اسی طرح ہے۔ الحمد للہ ہمارے بزرگان دین رضی اللہ عنھم کا کیسا تقویٰ اور کسی پرہیز گاری تھی اور ہے ہزار جانیں فدا ان کے تقویٰ و پرہیز گاری پر یہ لوگ کتنے عظیم انسان ہیں۔ ان کی نظر میں شعائر اسلام کی کتنی اہمیت وفضلیت ہے انہی صاحب تقویٰ کا لوگوں کی وجہ سے زمین وآسمان کا نظام قائم ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کے چہرے خوف خدا عزوجل کی وجہ سے زرد پڑ گئے۔ ان کی آنکھوں میں شب بیداری وآہ و زاری کی چمک ہے ان کی آنکھیں ذکر خداومصطفیٰۖ کی آئینہ دار ہیں ان کی زبانیں اللہ کی یاد اور مصطفیٰ کریمۖ کی محبت سے مزین ہیں ان کے لبوں پر خوف وخشیت کی وجہ سے ہنسی کی چمک نہیں ان کی آنکھوں سے اشک باری کا طوفان جاری ہے۔ الغرض ان کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہۖ کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزرتا ہے پھر انہی لوگوں کو اعلیٰ دارفع مقامات سے نوازا جاتا ہے۔ ان کی زبانوں سے جو کچھ نکل جاتا ہے پھر تعالیٰ اسے پورا فرما دیتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ ان کے تقویٰ وپرہیز گاری کے سمندر سے وافر حصہ ہمیں بھی عطا فرمائے اور ان کے درجات مزید بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے