سبکدوش پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی!!!

0
71

سبکدوش پی ڈی ایم حکومت کے سربراہ شہباز شریف نے قوم سے الوداعی خطاب میں اس دعوے کا اعادہ کیا کہ انہوں نے ریاست کو مقدم سمجھتے ہوئے اپنی سیاست کو قربان کیا اور ملک کو تباہی سے بچایا ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت آئینی راستے سے آئی اور اسی راستے سے واپس جا رہی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ملک دشمن پاکستان کی حالت سری لنکا جیسی دیکھنا چاہتے تھے۔ ملک کے خلاف سازشیں ناکام ہوئیں۔انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ قوم کے اختیارات اور وسائل کی امانت میں ان کی حکومت نے کوئی خیانت نہیں کی۔آئندہ انتخابات کی شفافیت یقینی دیکھنے کے لئے انہوں نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے اچھی امید کا اظہار کیا اور جلد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا وعدہ کیا۔ سبکدوش وزیر اعظم شہباز شریف کے دعوئوں اور وعدوں کو حقائق کے ترازو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ اس لئے بھی لازم ہے کہ ابھی ان کی حکومت کے دوران بے ضابطگیوں بدعنوانیوں اور بد انتظامی کی سرگرمیوں سے متعلق رپورٹیں سامنے نہیں آئیں اس لئے ان کی کارکردگی کو ماضی کے دعوئوں اور موجودہ کارکردگی کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی جے یوآئی ایم کیو ایم بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی اے این پی جمعیت علما پاکستان نورانی اور دیگر جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے کے لئے 2018 سے کوشش شروع کر دی تھی الگ الگ نظریات اور سمت کی مالک ان جماعتوں کے پاس کوئی مشترکہ لائحہ عمل تھا نہ ملک کو مسائل سے نکالنے کا منصوبہ۔بظاہر یہ جماعتیں صرف حکومت ہٹانا چاہتی تھیں۔جے یو آئی کا اسلام آباد مارچ تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی دیکھنے کو ملا۔یہ وہی رویہ تھا جس کی مذمت جے یو آئی سمیت تمام پی ڈی ایم جماعتیں 2014 کے دوران تحریک انصاف کے دھرنے کے موقع پر کیا کرتی تھیں۔جمہوری حکومت کو قبل از وقت گھر بھیجنے کے نقصانات سے پی ڈی ایم بھلا کیسے ناواقف ہو سکتی تھی۔ خود ان جماعتوں نے کچھ نہیں سیکھا۔2020 اور 2021 میں پی ڈی ایم نے شہر شہر جلسوں کی مہم شروع کی۔ یہ مہم اس وقت ناکامی سے دوچار ہوئی جب مینار پاکستان گرائونڈ میں مسلم لیگ نواز دس ہزار لوگ بھی جمع نہ کر سکی۔پھر رہی سہی کسر پی ڈی ایم رہنما محمود اچکزئی کے پنجاب کے بارے میں نامناسب خیالات نے پوری کر دی۔ پی ڈی ایم کو امید اس وقت ہوئی جب پی ٹی آئی حکومت سول ملٹری تعلقات کو متوازن نہ رکھ پائی۔اس موقع پر سابق وزیر اعظم کا دورہ روس امریکی سائفر جیسی کہانیاں پھیلتی رہیں۔پی ڈی ایم کے پاس تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس الزامات کا جوازنہ تھا اس لئے مہنگائی کو ایشو بنا کر سیاست کا مرکزی نکتہ تراشا گیا۔بلاول بھٹو زرداری کراچی سے مہنگائی ریلی لے کر نکلے۔مطالبہ کیا گیا کہ مہنگائی کنٹرول نہ کرنے پر پی ٹی آئی حکومت مستعفی ہو جائے۔حالات کا جبر ہے کہ سولہ ماہ کے دوران پی ڈی ایم حکومت نے مہنگائی تین گناکر دی۔ اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے نتیجے میں ختم ہوئی۔تحریک انصاف کے خلاف تحریک کامیاب بنانے کے لئے پہلے مرحلے میں اتحادیوں کو الگ کیا گیا۔ پھر تحریک انصاف کے اراکین کو منحرف بنایا گیا۔سندھ ہائوس میں منحرفین کے لئے رہائش کا انتظام کیا گیا۔رپورٹس میں بتایا گیا کہ اراکین کی خریدوفروخت اور دیگر حربوں سے پی ٹی آئی حکومت ختم کی گئی۔یہ ایسا باب ہے جس کی تفصیل تاریخ نے ابھی اگلنا ہے لیکن تاثر یہی ہے کہ یہ جمہوری عمل ماضی کی طرح غیر جمہوری انداز میں انجام دیا گیا۔ جہاں تک پی ڈی ایم کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اقتدار ملنے کے بعد مہنگائی کم نہ ہو سکی پٹرول کے نرخ دوگنا ہو گئے، ڈالر کی قدر 187روپے سے 275روپے تک جا پہنچی16ماہ کے دوران اکثر اوقات آٹا نایاب رہا اگر کبھی ملا تو کئی گنا زیادہ قیمت پر۔پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کا خوف دلا کر 18روپے فی یونٹ والی بجلی 50روپے فی یونٹ کر دی ہے۔ قیمتوں پر حکومت کا کوئی قابو نظر نہ آیا۔پہلے مفتاح اسماعیل اور پھر اسحق ڈار کو وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن دونوں نے سخت مایوس کیا۔ ان سولہ ماہ کے دوران پی ڈی ایم کی حکومت نے عوامی بہبود اور سہولت کے لئے تو کوئی کام نہ کیا تاہم پارلیمانی روایات کو پامال کر کے کئی طرح کی قانون سازی کی گئی۔نیب قوانین میں ترمیم کر کے پی ڈی ایم رہنمائوں کے مقدمات ختم کئے گئے۔قومی اسمبلی نے جاتے جاتے ایسا قانون بھی منظور کر لیا جس نے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی ضبط شدہ جائیداد انہیں واپس دلا دی۔ جناب شہباز شریف اسے اگر اپنی اچھی کارکردگی سمجھتے ہیں تو الگ بات ورنہ یہ کارکردگی عوام کی نظر میں قطعی قابل تحسین نہیں۔ پی ڈی ایم جماعتوں کا یہ کہنا کہ انہوں نے اپنی سیاست ریاست کی خاطر قربان کی اب کوئی پرکشش نعرہ نہیں رہا وعدہ خلافی کے بعد عوام کی زندگی اس حد تک اجیرن بنا دی گئی ہے کہ آئندہ انتخابات میں بڑے ردعمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پی ڈی ایم نے سیاسی انتقام کی جو روایت زندہ کی ہے وہ مستقبل کی سیاست کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ان خرابیوں کا تجزیہ کئے بنا پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی کو اچھا قرار دینا قابل فہم نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here