قارئین وطن ! آج ستمبر ہے اور لیبر ڈے کی چھٹی ہے میں ہفتہ وار کالم لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ دو دنوں کے بعد ستمبر جس دن ہندوستان نے لاہور پر فوجی یلگار کی تھی دن بھارت اور پاکستان کی جنگ رہی اس جنگ کے اختتام کو کتنے زمانے لد گئے ہیں لیکن اس دن کی جنگ کے ایک ایک واقعات آج بھی اس بزرگ ذہن میں نقش ہیں اس جنگ کے دو اہم واقعہ تو ایسے ذہن میں زندہ ہیں جیسے کل کی بات ہے ایک جس طرح میجر عبدالعزیز بھٹی شہید نشان حیدر نے میرے شہر لاہور کی حفاظت کی اور بھارتی فوج کے ہر عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔ اور دوسرا واقعہ جرنل رومیل اور فیلڈ مارشل جرنل منٹگمری کے درمیان ہونے والی ٹینکوں کی لڑائی کے بعد چونڈہ سیالکوٹ میں جہاں بھارت نے ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا عزیزان وطن اس بھارتی حملہ کو غیور شہریوں نے اپنے جسم پر بم باندھ کر اس حملہ کو پسپا کیا اور جنگ کا نقشہ بدل دیا زندہ باد زندہ باد میرے معصوم شہیدوں زندہ باد ۔
قارئین وطن! آج بجلی کے بلوں سے خوفزدہ ہونے والے اور بھوک سے تنگ آ کر اپنے معصوم بچوں کے ساتھ آئے دن خودکشی کر رہے ہیں میں یہ سوچ رہا ہوں ستمبر کو بیٹھ کر کہ چونڈہ سیالکوٹ کو اپنے جسموں پر بم باندھ کر بچانے والے کوئی سہگل ، آدم جی، ہارونز ، جرنیلز، نو دولتیوں شریفوں ، زرداریوں کی اولاد نہیں تھے سب غریب لوگ تھے بڑے لوگوں میں اور ان میں صرف ایک فرق تھا کہ یہ محب وطن تھے وطن کی عظمت کی پاسداری ان کا ایمان تھا لیکن خدارا آج بجلی اور بھوک سے خودکشی کرنے والوں سے صرف ایک سوال کیا بجلی کے بل اور بھوک بھارتی ٹینکوں سے زیادہ وزنی ہیں آج تو پورا ملک چونڈہ بنا ہوا ہے وہاں ایک یا دو دن کی جنگ تھی یہاں تو مہینوں سے بربریت طاری ہے جس کا وزن کسی بھارتی ٹینک کے وزن سے کم نہیں تو پھر ہم کیوں مر رہے ہیں اگر مرنا ہی ہے تو حرام موت کیوں مریں جامِ شہادت نوش کر کے سرخرو کیوں نہیں ہوتے ویسے تو میرے مرشد ثانی فیض احمد فیض نے ظلم سہنے والو کو کہ دیا تھا!
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے
اس کے بعد بھی بجلی کے بلوں اور بھوک سے خود بھی تڑپتے ہو اور اپنے بچوں کو بھی تڑپاتے ہو بغاوت پر اتر آ پچھلے دنوں میرے نتاواں کانوں میں انقلاب کی آواز آئی تو تھی اس پر ہمارے ہر دلعزیز شاعر ملک مقسط ندیم ایمن آبادی صاحب نے ہم سوختہ سامانوں کو بغاوت کی نوید دی!
شہر کے لوگ بغاوت پر اتر آئے ہیں
شکر ہے کچھ تو درختوں پہ ثمر آئے ہیں
عزیزان وطن ! انقلاب انقلاب کا ورد کرتے رہو چونڈہ کے شہید بن جا یہ موزی جو آء ایم آف کے ملازم ہیں یہ ان ٹینکوں سے زیادہ خطرناک ہیں آ اور چھ ستمبر کی یاد تازہ کردو یہ ٹینک خودکشی سے نہیں اڑیں گے ان کو اڑانا پڑے گا کہاں گئے میرے بجلی کا بل لہرا کر چیخنے والے یہ جو مٹھی بھر مافیا اور ان کے مٹھی بھر خاکی وردی میں لپٹے ہوئے جرنیل یہ آج کے ٹینک ہیں ستمبر سر پر کھڑا ہے اور پانچ دن آگے ستمبر بھی ہے امریکیوں کی دو بلڈنگیں تباہ ہوئیں انہوں نے نو اسلامی ریاستوں کو تہہ و بالا کر دیا اور عزیزان وطن آپ سے یہ مٹھی بھر شیطانی ٹولہ نہیں سنبھالا جا رہا ہے منیر نیازی نے مرنے سے پہلے آپ کو ایک تعویز کے ذریعے بات سمجھائی تھی!
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پر اٹھا دینا چاہئے
کہو تو نیازی صاحب کو عالم ارواح میں آواز دیں کہ حضور آپ کا پہلا تعویز تو ہمارے کام نہیں آیا ہم حشر کیا اٹھاتے ہم تو اپنے بچوں کے ساتھ خود کشی کر رہے ہیں اور پاک فوج زندہ باد نواز شریف زندہ باد زرداری زندہ باد مولانا زندہ باد کے نام پر پاکستان بنانے کی قربانی دے رہے ہیں ۔
٭٭٭