فلسطین میں قتل ہوتے بچوں، عورتوں، جوانوں، بزرگوں کی تصویریں اور بچ جانے والوں کی ملول آہیں عالمی ضمیر نامی چیز پر احساس کے کچوکے لگا رہی ہیں۔ مذمت، افسوس اور تعزیت کے سب الفاظ، اظہار کے سب طریقے اور تاسف کے سب انداز اپنے معنی کھو رہے ہیں۔المیہ جنم لے چکا ہے اور تاریخ اپنے دامن میں ظلم کی نئی داستان رقم کیے بے بس کھڑی ہے۔ ذہن شل ہے اور زبان لڑکھڑا رہی ہے۔ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم فلسطینی بچوں اور عورتوں کی دلخراش تصویروں اور چیخوں سے بھرے پڑے ہیں۔ معصوم لاشیں کچھ زندہ اور کچھ مْردہ، نوجوان زخمی اور آزردہ، مرنے والے سب ایک ہی رنگ اور نسل کے ہیں جن کا خون تیل کی چند بوندوں سے بھی سستا ہے۔خون فلسطینیوں کا بہہ رہا ہے اور شرمندگی کے پسینے انسانیت کے ماتھے سے پھوٹ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اْس بچے کا کیا قصور تھا جس کی پیدائش سے قبل اْس کی موت کا سرٹیفیکٹ جاری ہوا؟آج انسانیت کے سر شرم سے جھک گئے ہیں ، کوئی معصوم جانوں کے ضیاع پر پوچھنے والا نہیں، روکنے والا نہیں، جنگل میں بھیڑیئے کھلے عام معصوم بچوں، خواتین اور نہتے لوگوںکا شکار کررہے ہیں ۔
اسرائیل کے فلسطین میں مظالم کے حوالے سے اسرائیلی نژاد امریکی مصنف نے اسرائیلی فورسز کی قلعی کھولتے ہوئے بتایا کہ کس طرح 2008 میں اسرائیلی فورسز نے غزہ میں صبح ساڑھے گیارہ بجے جب بچے سکولوں سے نکل رہے تھے اور گلیاں طلبا سے بھری ہوئی تھیںنے ٹنوں کے حساب سے بم برسائے،لیکن اس پر کوئی جواب طلبی کرنے والا نہیںہے ، غزہ کی 140 مربع میل کی پٹی میں 23 لاکھ لوگ بستے ہیں، آٹھ ہزار سے زائد مارے جا چکے ہیں۔ غزہ کی کْل آبادی میں 50 فیصد صرف بچے ہیں جبکہ 24 سال سے کم عمر آبادی 65 فیصد ہے۔ 50 ہزار مائیں رواں ماہ بچے پیدا کریں گی بلکہ یوں کہیے موت کے لیے زندگی کو جنم دیں گی مگر دنیا خاموش تماشائی ہے۔خاردار بجلی کی تاروں میں محصور غزہ کے محروم اور مجبور عوام بے بسی کا نوحہ ہیں مگر اْن کی آواز اْن کے قریب ترین مسلمان ہمسائے ملک بھی سْننے کو تیار نہیں۔فلسطین کی مقتل گاہ میں مارے جانے والے بے گْناہ مسلمانوں کے مناظر ہر روز دیکھنے والے 57 مسلمان ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا کی آبادی کا 21 فیصد ہیں۔تیل اور گیس جیسے وسائل سے مالا مال جبکہ انسانی وسائل سے بھرپور مسلمان ممالک 41 ملکوں پر مشتمل ایک فوج بھی رکھتے ہیں جس کے سپہ سالار پاکستان کی فوج کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔یمن جیسے غریب اسلامی ملک کے باغی گروہ کو قابو میں لانے والی عظیم اسلامی فوج اسرائیل کے سامنے ناصرف خاموش ہے بلکہ آہ بھی سوچ سمجھ کر نکال رہی ہے۔تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک مذمتی قراردادوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں اور اقبال کے ‘بے تیخ’ سپاہی بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ اسلامی ملکوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے اب تک کے ‘غیر معمولی اجلاس’ اسرائیل کو معمولی سا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکے۔المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک اس وقت طاقت اور خون کے نشے میں بدمست اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہیں اور صرف بیانات کی حد تک معاملے کو آگے بڑھا رہے ہیں ، ایران نے بھی حماس اور فلسطینیوں کی لفظی حمایت پر اکتفا کر رکھاہے جبکہ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی ہے ، غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف استنبول میں فلسطین ریلی ہوئی جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور فلسطینیوں سے متعلق اپنی آواز عالمی برادری تک پہنچائی۔استنبول کی فلسطین ریلی سے ترک صدر رجب طیب اردوان نے خطاب کیا اور اسرائیل کی بربریت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل تم نے یہ زمینیں کیسے حاصل کیں؟ تم قابض ہو، مغرب آپ کا مقروض ہے، لیکن ترکی آپ کا مقروض نہیں ہے، اس لیے ہم آزادانہ بات کر سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تمام مغربی ممالک آپ کے مقروض ہیں اور اسی لیے وہ بات نہیں کر سکتے۔ وہ آپ سے ملنے آتے ہیں اور آپ سے معافی مانگتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسے مسائل نہیں ہیںہم مظلوموں کے ساتھ ہیں جو لوگ کل یوکرین کے شہریوں کے قتل عام پر مگرمچھ کے آنسو روتے رہے، وہ ہزاروں معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ تم مرنے والے یوکرینیوں کے لیے آنسو بہاتے ہو، تم غزہ کے مارے جانے والے بچوں کی بات کیوں نہیں کرتے؟ترک صدر کی تقریر پر اسرائیلی وزیرخارجہ بھڑک اٹھے اور ترکیے سے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلانے کا حکم دے دیاہے، ترک صدر تو اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن اب دیگر مسلم ممالک کے سربراہان کو بھی اس سلسلے میں سخت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ غزہ میں جنگ بندی کو جلد سے جلد ممکن بنایا جا سکے۔
٭٭٭