نہ جھکا ہوں اور نہ قوم کو جھکنے دوں گا!!!

0
201

ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہم گروہوں‘ فرقوں اور تعصبات میں گھرے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم نے کبھی ایک قوم بن کر نہیں سوچا‘ اسی لئے ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ دوسری قومیں اور دوسرے ممالک اپنے ملک کیلئے سوچتے ہیں۔ ابھی عمران خان جو کہ صرف پی ٹی آئی کے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ابھی ان کا اعلان ہی ہوا تھا کہ ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ہے کہ عمران خان کو دعوت ملی ہے یا نہیں کیونکہ ہماری لابی بہت کمزور ہے۔ انڈیا کے مقابلے میں ہم بٹے ہوئے ہیں۔ اب جبکہ عمران خان نے امریکہ پہنچ کر ان سارے خدشات کو ختم کردیا اور جس طرح پاکستانی کمیونٹی نے واشنگٹن پہنچ کر ایک تاریخ رقم کردی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ اپنے لیڈر کا کس طرح استقبال کیا جاتا ہے۔ ان ہزاروں لوگوں میں بلوچستان سے دس‘ پندرہ لوگوں نے جو نعرے بازی کی اس کی بازگشت کہیں نظر نہیں آئی جبکہ ساری دنیا کی نظریں اس ملاقات پر مرکوز تھیں کہ کیا ہوگا۔ دونوں لیڈر ایک دوسرے سے مختلف لیکن صاف گول کھل کر بات کرنے والے اور جس طرح کی باتیں ہورہی تھیں کہ ایئرپورٹ پر استقبال نہیں ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے استقبال کیا پھر جب وائٹ ہاﺅس میں ملاقات ہوئی تو کس طرح گرمجوشی سے صدر ٹرمپ نے عمران خان سے مصافحہ کیا اور عمران خان پوری ملقاات میں جس طرح بات چیت کرتے نظر آئے انہوں نے کوئی پرچی اپنے پاس نہیں رکھی تھی۔ بڑے بردبار طریقے سے بات کی اور کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ عمران خان پر کوئی دباﺅ ہے۔ عمران خان نے ایک دن پہلے تقریر میں صاف کہہ دیا تھا کہ میں نے جو بات 23 سال پہلے کہی تھی وہ آج پھر کہہ رہا ہوں کہ میں نے کسی کے سامنے جھکا ہوں (سوائے خدا کے) اور نہ ہی اپنی قوم کو جھکنے دوں گا اور ہمارے وزیراعظم نے یہ کرکے دکھا دیا اور صدر ٹرمپ نے عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین وزیراعظم قرار دیا۔ عمران خان کی تقریر سے لوگ اختلاف کرسکتے ہیں کہ انہوں نے مستقبل کے بارے میں کوئی پروگرام نہیں کیا۔ بس یہی کہا کہ انشاءاللہ ہر سال بہتری آئے گی۔ انہوں نے کرپشن کو ختم کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ خدا کرے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوں اور قوم کا پیسہ نکلوا سکیں۔ عمران خان بھی یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئیں گے۔ اس سے پہلے کوئی بھی دنیا کا وزیراعظم اپنی قوم سے اتنے بڑے جلسہ سے خطاب نہیں کرسکا۔ یہ پاکستان نہیں تھا کہ لوگوں کو گاڑیوں اور بسوں میں بھر کر‘ پیسے دے کر لایا گیا ہو۔ یہ محبت تھی پاکستان سے‘ اپنے وزیراعظم سے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے ملک سے پیار ہے اور عمران خان خانتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے۔ شوکت خانم ہو یا نمل یونیورسٹی ہو‘ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے کیونکہ عمران خان کے بارے میں لوگ کچھ بھی کہیں‘ عمران خان کرپٹ نہیں ہے‘ ایماندار ہے۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستانی قوم اپنے لیڈر سے کتنا پیار کرتی ہے۔ ہمارے نیویارک کے صحافی عظیم میاں نے جیو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی 40 سالہ صحافت میں اتنا بڑا مجمع نہیں دیکھا۔ گلف نیوز کی رپورٹ 30 ہزار کی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے کچھ لوگ ہیں جو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی یقین نہیں کررہے کیونکہ ان کی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگی ہوئی ہے۔ ایک بات جو ہمارے ہیوسٹن کے لوگوں کو بری لگی ہے وہ ہے پی ٹی آئی کے صدر عبداللہ ریاڑ نے اپنے تمام دوستوں کا نام لیا لیکن ہیوسٹن کے سجاد برکی کا نام لیتے ہوئے ان کو خیال نہیں آیا جبکہ پورا انتظام جو وہاں ہوا ہے وہ مڈلینڈ کے جاوید انور نے پورا خرچہ برداشت کیا ہے‘ ن پی ٹی آئی اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی خرچہ ہوا جبکہ عمران خان نے وی آئی پی کلچر کو بھی خیر باد کہہ کر قطر ایئرویز کی فلائٹ سے وہاں پہنچے اور ہوٹل کی بجائے پاکستان ایمبیسی ہاﺅس میں رہنا پسند کیا۔ اس پر بھی ہمارا ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایمبیسی ہاﺅس میں رہ کر گرفتاری سے بچنے کیلئے کیا ہے۔ یارو خدا کو مانو‘ بغض معاویہ میں اتنے آگے نہ نکلو کہ واپسی کا راستہ نہ ملے۔ اس موقع پر پوری قوم کو اکٹھا رہنا ہے تاکہ امریکہ کو بھی یہ پیغام مل جائے کہ پاکستانی قوم ایک ہے اور اپنے قائد پر بھروسہ کرتی ہے۔ مشکلات میں وہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائی گی۔ انشاءاللہ پاکستان پھر سے اپنی شناخت بنا لے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here