محترم قارئین! خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی حسن الحسینی سنجری رضی اللہ عنہ کا سالانہ عرس پاک اجمیر انڈیا کی سرزمین پرہر سال6رجب المرجب کو انتہائی نزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ جس میں پوری دنیا سے لاکھوں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اور پوری دنیا کے مختلف مقامات پر بھی آپ رضی اللہ عنہ کا عرس پاک پوری دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ آپ برصغیر پاک وہند میں بڑے بڑے بزرگوں کے سر حلقہ اور سلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں۔ بیس سال تک سفر وحضر میں خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ عثمان ارونی رضی اللہ عنہ نے آپ کو نعمت خلافت سے نوازا۔ باقی آپ کو جاتے ہی بیعت وخلافت سے نوازش کی روایت بھی بہت مشہور ہے۔ آپ پتھورا رائے کے دور حکومت میں اجمیر(ہندوستان) تشریف لائے۔ اور عبادت الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ پتھورا رائے ان دنوں اجمیر میں ہی مقیم تھا۔ ایک روز اس نے آپ کے ایک مسلمان عقیدت مند کو کسی وجہ سے ستایا۔ وہ بیچارا آپ کے پاس فریاد لے کر پہنچا۔ آپ نے اس کی سفارش میں پتھورا رائے کے پاس ایک پیغام بھیجا۔ لیکن اس نے آپ کی سفارش قبول نہ کی جبکہ وہ مسلمان عقیدت مند مظلوم وبے قصور تھا۔ مزیدہ پتھورا رائے کہنے لگا کہ یہ شخص یہاں آکر بیٹھ گیا ہے اور غیب کی باتیں کرتا ہے۔ جب خواجہ صاحب رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کرکے حوالہ کردیا ہے۔ اسی زمانہ میں سلطان معزالدین سام عرف شہاب الدین غورف کی فوج غزنی سے پہنچی۔ پتھورا لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آیا اور سلطان معز الدین کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اسی تاریخ سے اس ملک میں اسلام پھیلا اور کفر ذلیل ہوا مشہور ہے کہ خواجہ اجمیری رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی مبارکہ پر یہ نقش ظاہر ہوا کہ حبیب اللہ مات فی جب اللہ یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں دنیا سے گیا۔ آپ کا وصال مبارک6رجب المرجب کو ہوا۔ بعض نے ماہ ذوالحجہ کا مہینہ لکھا ہے۔633سن تھا جہاں آپ کی رہائبش تھی وہیں مزار شریف بنایا گیا آپ کا مزار مبارک ابتداء اینٹوں سے بنایا گیا پھر اس کو اپنی حالت پر باقی رکھ کر پتھر کا ایک صندق اس کے اوپر بنایا گیا اسی وجہ سے آپ کے مزار میں بلندی پیدا ہوگئی۔ سب سے پہلے آپ کے مزار شریف کی عبادت خواجہ حسین ناگوری نے بنوائی۔ اس کے بعد دروازہ اور خانقاہ تعمیر کئے گئے۔ بہرحال آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت میں گزاری اور نبی پاکۖ کی محبت و اطاعت میں اپنے شب و روز گزارے۔ تقریباً ستانوے برس عمر مبارکہ ہوئی۔ لاکھوں لوگوں کو کلمہ پڑھا کر دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ کفر وشرک سے انتہائی نفرت تھی اور ساری زندگی یہی کوشش کی کہ اپنے پاس بیٹھنے والا دولت اسلام سے سرفراز ہو نبی پاکۖ کا غلام بن جائے اور بہت حد تک اس کوشش میں کامیاب رہے۔ آپ کے ملضوظات میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی بدولت انسان دنیا سے نفرت اور آخرت سے محبت کرنے لگا اور آپ کی غلامی اختیار کرلی۔ ناپائیدار دنیا کو چھوڑ کر آخرت سے منسلک ہوگیا۔ آپ فرماتے ہیں عاشق کا دل محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ لہذا جو کچھ بھی اس دل میں آئیگا جل جائے گا۔ اور نابود ہوجائے گا کیونکہ محبت کی آتش سے زیادہ تیزی کسی آگ میں نہیں۔ ارشاد فرمایا، بہتی ندیوں کا شور سنو کہ کس طرح شور کرتی ہیں۔ لیکن جب سمندر میں پہنچتی ہیں تو بالکل خاموش ہوجاتی ہیں۔ ارشاد فرمایا: میں نے خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ عنہ کی زبان مبارکہ سے خود سنا ہے فرماتے تھے کہ جس شخص میں تین باتیں ہوں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے اول سمندروں جیسی سخاوت دوم آفتاب جیسی شفقت سوم زمین جیسی تواضع۔ ارشاد فرمایا نیک لوگوں کی محبت نیکی کرنے سے بہتر ہے اور برے لوگوں کی صحبت بدی کرنے سے بدتر ہے۔ ارشاد فرمایا: مرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائے گا جبکہ اس کی بائیں طرف والے فرشتے نے بیس سال تک اس کا ایک گناہ بھی نہ لکھا ہو(اس کا مطلب یہی لگتا ہے کہ بندہ ہر وقت توبہ واستغفار میں رہے کیونکہ توبہ واستغفار کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں لکھا جاتا)
ارشاد فرمایا: میں خواجہ عثمان ہارونی کی زبانی سنی ہے یہ بات، فرماتے تھے کہ مستحق فقر اس وقت ہوتا ہے۔ جب عالم فانی میں اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ محبت کی علامت یہ ہے کہ فرماں بردار رہتے ہوئے اس بات سے ڈرتے رہو کہ محبوب تمہیں کہیں دوستی سے جدا نہ کردے۔ ارشاد فرمایا: عارفوں کا بڑا بلند مقام ہے جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام د نیا ومافیھا کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: عارف وہ ہے جو کچھ چاہے فوراً اس کے سامنے ہوجائے۔ اور جو کچھ بات کرے تو فوراً اس کی جانب سے اس کا جواب سن لے۔ ارشاد فرمایا: محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ صفات حق اس کے اندر پیدا ہوجائیں اور محبت میں عارف کا درجہ کامل یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلہ میں آجائے تو وہ اپنی قوت کرامت سے اسے گرفتار کرلے۔ ارشاد فرمایا: ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے عیش وراحت کو چھوڑ دے اور اللہ عزوجل کی یاد سے محبت کرے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیضان زہد وتقویٰ اور جرات و بہادری سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے