خطبہ حج اور مسلم امہ کے اجتماعی مسائل!!!

0
47

لاکھوں حجاج کرام کی موجودگی میں مسجد نمرہ میں شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے خوب دعائیں کریں جو مصیبت میں ہیں ،جہاں کھانا، پانی اور امان نہیں ہے۔ شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے خطبہ حج میں کہا کہ اللہ تعالی اپنی ذات میں واحد ہے، پیغمبرۖ کا احترام کرنے والوں نے فلاح پائی۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے حضرت محمدۖ کو رحمت بنا کر بھیجا، جن لوگوں نے پیغمبر ۖکی عزت کی، ایمان لائے اور اس نور الہی کی پیروی کی جو نازل ہوا، وہی کامیاب لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رسول ۖ نے فرمایا کہ اے لوگو، میں اللہ کا رسول ہوں، جس کے ہاتھ میں ساری کائنات ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہ برحق ہے، اس پر ایمان لاو، اے لوگوں اللہ سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کے اور بیٹا باپکے کام نہیں آئے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے، تمہیں دنیا کی چمک اور شیطان دھوکے میں نہ ڈال دے۔ امام کعبہ نے خطبہ حج میں کہا کہ جو متقی ہے، اس کو دنیا اور آخرت میں بہترین انعام ملے گا، اللہ فرماتا ہے کہ وہ متقی لوگو کو فلاح کے ساتھ نجات دیتا ہے۔ اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے، اس دن ڈرو جس کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت قائم ہوگی، اس دن کوئی دنیا کا دھوکہ اور مال و متاع کسی کے کام نہیں آئے گا۔ خطبہ حج میں مسلمانوں کو اپنے اجتماعی معاملات میں احکامات خداوندی کی پیروی کا کہا گیا۔امام کعبہ نے کہا کہ دنیا کے ہر معاملے میں اللہ کا خوف تہمارے دل میں رہنا چاہیے، تقوی ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ہر نیکی اخلاص پر مبنی ہو، اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ بلاشبہ توحید اسلام کی بنیاد ہے ،توحید کا تصور انسان کو فکری آزادی دیتا ہے ۔ خطبہ حج میں کہا گیا کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے، اے لوگو، اللہ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا، ایک جان سے، حضرت آدم علیہ السلام سے ساری انسانیت کا سلسلہ چلایا، اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ تمہارا ایک معبود ہے، اسی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کرو، قریبی رشتے داروں کا حق ادا کرو۔ خطبہ حج میں کہا گیا کہ دیکھو مسلمانو، اللہ سے ڈرو، نمازوں کو قائم کرو، انہیں اپنے وقت پر ادا کرو، نمازوں کی پابندی کرو، اللہ تمہیں بڑے قریب سے دیکھ رہا ہے، اسے پتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو، عبادت میں کتنے مخلص ہو، اللہ کے راستے میں صدقہ، خیرات کرو، تمہاری نمازیں، صدقہ، خیرات، تمہاری قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔خطبے میں کہا گیا کہ اسلام یہ ہے کہ آپ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا دنیا میں کوئی معبود نہیں اور نبیۖاللہ کے نبی اور سچے رسول ہیں اور ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ پر، اس کے رسولوں پر اور جنتی بھی شریعتیں ہیں، ان پر ایمان لائیں، جب اللہ کی عبادت کریں تو یہ گمان کریں کہ گویا کہ آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں، اگرچہ آپ اللہ کو نہیں دیکھ رہے لیکن اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ خطبہ حج کے اختتام پر شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے کہا کہ جس مقام پر تم کھڑے ہو، اس مقام پر رسول اللہ ۖ نے حطبہ دیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا کہا، اس کے بعد آپ ۖ نے ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی، اس کے بعد اپنی اونٹنی پر کھڑے ہوئے، ذکر کیا، دعائیں کیں حتی کا سورج غروب ہوگیا، پھر مزدلفہ کی طرف نکلے تاکہ لوگ سکون پاسکیں، وہاں مغرب کی تین رکعت اور عشا کی دو رکعت پڑھیں اور پھر فجر پڑھی، پھر منی گئے، پھر کنکریاں ماریں، پھر قربانی کی، پھر حلق کیا اور طواف کے لیے بیت اللہ تشریف لے گئے اور یہ 10تاریخ ہوگئی۔شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے کہا کہ اے حاجیوں اپنے لیے دعا کرو، اپنے والدین اور جس نے بھی صلہ رحمی کی اور تمہارے ساتھ نیکی کی، ان کے لیے دعا کرو۔ انہوں نے کہا کہ اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں دعا کرو، تہمیں بھی وہی ملے گا، فرشتہ بھی وہی کہے گا، اور وہ جو مصیبتوں میں ہیں، فلسطین میں ہیں، جنگ پہنچ چکی ہے، ٹوٹ پھوٹ گئے، اہل فلسطین کے لیے دعا کرو، پانی بھی نہیں ہے، بجلی بھی نہیں ہے، کھانا بھی نہیں ہے، جگہ نہیں ہے، امن نہیں ہے، اپنے ان فلسطینی بھائیوں کے لیے خوب دعا کرو، سب سے زیادہ ان کے لیے دعا کرو جو مستحق ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے بھی دعا کرو جنہوں نے اہل فلسیطن کو کھانا دیا، انہیں ایمبولنس دی، احسان کیا، نیکی کی، ان کے لیے بھی دعا کرو۔ خطبہ حج پوری دنیا کے مسلمانوں کی عصری ضروریات، مسائل اور معاملات پر اجتماعی حکمت عملی پیش کرتا ہے۔ بے شک عالم اسلام کو جہاں مغربی دنیا کی معاشی جارحیت کا سامنا ہے وہاں نظریات اور مذہبی عقائد پر حملے بھی سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں۔اس لئے خطبہ حج میں زیادہ توجہ عقائد پر رکھی گئی۔فلسطین کا معاملہ مسلامانوں کی سیاسی معذوری اور کمزوری کے باعث سنگین ہوا ہے، کشمیر کے تنازع پر بھی یہ کمزوری موجود ہے۔عید الاضحی کے موقع پر جہاں مسلمان اقوام کو سنت ابراہیمی کی ادائیگی پر خلوص انداز میں کرنا ہے وہاں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی جدو جہد کی حمایت ایک فریضہ سمجھ کر کرنا ہو گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here