وطن اور آستین کے سانپ!!!

0
3
جاوید رانا

انقلابی شاعر حبیب جالب نے سابق صدر و ڈکٹیٹر ایوب خان کے ظلم و جبر کیخلاف نعرۂ حق بلند کرتے ہوئے کہا تھا ”کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا، جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں”۔ یہ شعر ہمیں اس لیے یاد آرہا ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان نفرت، مخالفت اور ضد کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ حکومت، سیاست، عدالت حتیٰ کہ ریاست کے معاملات بغض و عداوت سے بھرے نظر آتے ہیں۔ اپنی برتری اور اختیار کی جنگ اداروں کے درمیان ہی نہیں اندر خانے بھی نظر آتی ہے اور عوام ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے اس صورتحال کے سبب پیدا ہونے والی مشکلات کے طوفان سے نبرد آزما ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف مقتدرہ کی سازش اور ستمگری کی یہ آگ اب اداروں کے اندر بھی اس قدر بھڑک چکی ہے کہ انصاف، قانون و آئین سے روگردانی اور ذاتیات و مفادات کے اندھیروں کے سواء کچھ نظر نہیں آتا۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد سے اب تک جو حشر برپا ہوا ہے قارئین ہر اقدام اور اس کے اثرات سے بخوبی واقف بھی ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ملک کس تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ جو قوتیں اس تمام تر صورتحال کی ذمہ دار ہیں انہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی فکر نہیں، صرف اپنے مفاد و مقصد کی تکمیل ان کی پہلی ترجیح ہے۔ ملک بھاڑ میں جائے اور عوام پریشان رہیں، ان کی بلا سے۔
ہم جس وقت یہ کالم لکھ رہے ہیں تو پارلیمان میں مخصوص نشستوں کا سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ فیصلے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں لیکن کیا یہ فیصلہ روبہ عمل لایا جائیگا، ایک اہم ترین سوال ہے؟ قارئین کے علم میں یہ بات یقیناً ہے کہ گزشتہ دنوں 8 رکنی بینچ کے الیکشن کمیشن کی درخواست وضاحت کے بعد جاری کردہ احکامات پر حکومت کا کیا رد عمل آیا تھا اور اگست میں الیکشن ایکٹ کے حوالے سے لائے گئے قانون کے تحت اسے رد کر دیا گیا۔ یہاں تک اسپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن کمیشن کو خط کے تناظر میں قومی اسمبلی سیکرٹری کی جانب سے تحریک انصاف کی نمائندگی صفر ظاہر کر دی گئی تھی۔ یہی نہیں چیف جسٹس کی جانب سے رجسٹرار سے 9 سوالات پر مبنی وضاحت طلب کر لی گئی تھی، یہ رد عمل بلا وجہ ہی نہیں تھے، مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ آنے والے تفصیلی فیصلے کو متنازعہ بنا کر عوامی مینڈیٹ کی تکفیر کی جائے اور پی ٹی آئی کو مقتدرہ کی منشاء کے مطابق پارلیمانی پراسس سے باہر رکھا جائے۔ ہم نے ابتدائی سطور میں عرض کیا ہے کہ عداوت و برتری کی جنگ ادر خانہ بھی نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ خانہ جنگی واضح نظر آرہی ہے۔ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونیوالے چیف جسٹس اور آئندہ چیف جسٹس کے درمیان یہ تقسیم اب گروپوں کے روپ میں اس قدر واضح ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل آتے ہی قاضی صاحب نے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین خان کو تین رکنی پینل میں شامل کر دیا جبکہ شاہ صاحب نے آرڈیننس کے ہوتے ہوئے شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ بات یکطرفہ نہیںتفصیلی فیصلے میں شاہ صاحب نے امین الدین خان و جسٹس نعیم افغان کو لتاڑا وہ غالباً سپریم کورٹ کی تاریخ میں واحد مثال ہوگی کہ اختلافی نوٹ پر اس طرح کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنے۔ اس قدر مخالف روئیے کی وجہ آخر کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے معزز جج صاحبان ایک نہ ہو سکیں۔
ہم نے کالم کے آغاز میں حبیب جالب کے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے زہر کا ذکر کیا تھا۔ نفرتوں کے پھیلتے ہوئے اس زہر کا آغاز ڈھائی برس قبل اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے مقبول ترین رہنما کے درمیان ہو کر اب وطن عزیز کے ہر شعبہ، ہر طبقے میں ُھیل چکا ہے اور اس کے اثرات ایک ایسی سمت اختیار کرتے جا رہے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی ہے بلکہ حالات کی مزید خرابی نظر آتی ہے۔ حق اور اغراض کے مابین یہ محاذ آرائی اب اس موڑ پر آچکی ہے جس کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ زور آوروں کی پروردہ حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے آئینی ترمیم، انتخابی ایکٹ میں تبدیلی اور آرڈیننس کی آڑ میں وہ حالات پیدا کرنا چاہتی ہے جو مقتدرہ کے ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ مقتدرین کے ارادے کوئی ڈھکے چھپے نہیں، عمران خان کو راہ سے ہٹانا ان کا اولین مقصد ہے۔ آئین کے آرٹیکل 8 میں تبدیلی اس وجہ سے مطلوب ہے کہ کپتان کو ملٹری ٹرائل سے دوچار کیا جائے، آئینی عدالت کے ذریعے من مانی فیصلے کرائے جا سکیں اور سیاسی مخالفین کو کچلا جا سکے، خصوصاً پی ٹی آئی اور عوام کا قائد ان کا نشانہ بنیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے طاقتور جو کھیل کھیلنا چاہتے ہیں کیا ان کیخلاف متاثرین اور عوام وہ جدوجہد کر سکیں گے جو مصر اور بنگلہ دیش میں مُرسی اور حسینہ واجد کیخلاف ہوئی۔ ہمارا گمان کہ ایسا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ مرسی کا زوال پوری قوم حتیٰ کہ دیگر اسٹیک ہولڈرز کی یکجائی سے ہوا جبکہ بنگلہ دیش کی اسٹیبلشمنٹ نے حسینہ واجد کو رسائی فراہم کی، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ عوام میں وہ سکت نظر نہیں آتی جس سے انقلاب برپا ہو، اور جعلی و طفیلی حکومت و دیگر ادارے اغراض و مفادات کے بوجھ تلے دبے اسٹیبلشمنٹ کی محکومی پر مجبور ہیں اور وہی کرینگے جو سیانوں کے بقول طاقتور چاہتے ہیں۔ اس سچائی میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی جدوجہد میں ساری قوم کی حمایت شامل ہے مگر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ طاقتور کسی نہ کسی طرح اپنی جیت کو یقینی بنا لیتے ہیں خواہ اس کیلئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اب بھی پردے کے پیچھے بہت کچھ ہو رہا ہے اور طفیلی حکومت اور ادارے مدد گار بنے ہوئے ہیں۔
ہمارا قیاس اور تجزیہ تو یہ ہے کہ حالات مزید بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر طاقتوروں کی مرضی کے مطابق نتائج نہ آسکے تو محض حکومتی سیٹ اپ اور آئینی اداروں کی چھٹی ہی نہیں نظام میں فرق آجائیگا اور چہرے بدل جائینگے۔ یہ تبدیلی ممکن ہے گزشتہ آمرانہ تبدیلیوں سے بدترین اور انسانی و جمہوری اقدار پر کاری ضرب بنے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ایک ماہ میں حالات میں بہتری نہ آئی تو ایسا کچھ ہی ہو جائیگا جو ہم نے اظہار کیا ہے۔ ہمارا کام بطور صحافی اپنا فرض پورا کرنا اور سچائی کو اُجاگر کرنا ہے سو ہم کر رہے ہیں!
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here