فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
3

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب جس قدر بھی ذکر کئے جائیں تو بہت کم ہیں آپ کو اللہ پاک جل جلالہ نے بے شمار خوبیوں اور مناقب سے نوازا ہے۔ آپ باپ کی طرف سے حُسنی اور ماں کی طرف سے حسینی سیّد ہیں۔ یعنی آپ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی حضرت الشیخ ابوصالح موسیٰ جنگی دوست رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ امّ الخیر فاطمہ رضی اللہ عنھا ہیں۔ دونوں زہد وتقویٰ کے سمندر ہیں تو اللہ پاک نے ان دونوں سمندروں کو ملا دیا تو حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی صورت میں یکتا موتی اور ہیرا عطا فرما دیا۔ آپ ولایت کے اعلیٰ مقام پر ایسے فائز تھے کہ آپ کا قدم مبارک ہر ولی کی گردن پر ہے۔ یعنی ولی ہے ہی وہ جس کی گردن پر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا قدم مبارک ہے۔ آپ صبرواستقلال کے پیکر تھے اور آپ مستقل مزاح تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ہر مرحلہ سالک کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی زندگی مطہرہ کے اعلیٰ اصول اپنا کر سالک کو منزل مقصود ملتی ہے چنانچہ آپ کو زمانہ طالب علمی میں اپنی تنگ دستی کے سبب بڑی بڑی شدید تکلیفیں اُٹھانا پڑیں۔ والدہ صاحبہ رضی اللہ عنھا کبھی کبھار کچھ مختصر درہم و دینار بھیج دیا کرتی تھیں۔ اس سے خورونوش کا کام چلتا تھا ایک مرتبہ بغداد شریف میں بڑا ہی خوف ناک قحط پڑا۔ اس وقت آپ کو سخت مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔ فاقوں پر فاقے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ فاقوں سے نڈھال اور بھوک سے بے تاب ہوکر ایک دن دریائے دجلہ کے کنارے تشریف لے گئے تاکہ درختوں کے پتے یا جنگلی پھل ہی کھا کر کچھ سکون حاصل کریں۔ مگر جس طرف جاتے ہر جگہ مساکین کا ہجوم پاتے اور کہیں بھی کھانے کے لائق کوئی چیز نظر نہ آتی۔یہاں تک کہ پھر شہر کی طرف واپس آئے اور جب بھوک سے آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا اور چند قدم چلنا بھی محال ہوگیا تو ایک مسجد میں جاکر گوشہ میں بیٹھ گئے۔ اتنے میں کیا دیکھا؟ کہ ایک عجمی شخص مسجد میں آیا اور بھنا ہوا گوشت اور مچھلی تھیلے سے نکال کر کھانے لگا۔ اتفاقاً اس کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے کہا کہ آئو بھائی تم بھی کھانا کھالو۔ آپ نے پہلے تو انکار فرما دیا مگر اس کے اصرار سے مجبور ہو کر دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ اس نے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ہوں اور تحصیل علم کے لئے بغداد آیا ہوا ہوں۔ یہ سن کر وہ چونکا اور بولا کہ میں بھی گیلان ہی کا باشندہ ہوں۔ اچھا تم بتائو کہ تم گیلان کے رہنے والے اس طالبعلم کو جانتے ہو جس کا نام عبدالقادر ہے؟ تو پیر رہبر روشن ضمیر غوث اعظم اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ تو میں ہی ہوں۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں سے آنسو طاری ہوگئے اور وہ رو رو کر کہنے لگا کہ سید زاد سے! خدا کی قسم میں نے تمہیں بہت تلاش کیا مگر تم نہیں ملے اور بغداد میں میری ساری رقم خرچ ہوگئی۔ تمہاری والدہ نے چند درہم تمہارے لئے بھیجے تھے جو میرے پاس امانت تھے۔ لیکن آج کہ تین دنوں کے فاقے سے میں جاں بلب ہوگیا تو میں نے تمہاری امانت میں سے یہ کھانا خریدا ہے۔ خدا کی قسم یہ کھانا تمہارا ہے اور میں تمہارا مہمان ہوں۔ میں نے انتہائی مجبوری کے عالم میں تمہاری امانت میں خیانت کا جرم کیا ہے۔ اللہ میرا یہ قصور معاف فرما دے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو معاف فرما دیا اور اس کے پاس سے باقی درہموں کو لے کر اس کی دلجوئی کے لئے اس میں سے کچھ درہم اس کو عطا فرما کر رخصتت کیا(ولائدالجواہر)
روایت ہے کہ اسی قحط بغداد کے وقت بہت سے طالبعلم غلہ وصول کرنے کے لئے دیہاتوں میں جانے لگے تو آپ بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور ایک گائوں میں پہنچے۔ وہاں ایک بزرگ رہتے تھے ان کی نظر جمال غوثیت پر پڑی تو وہ اپنی فراست باطنی سے تاڑ گئے کہ ہی ذرہ کبھی آفتاب بن کر چمکنے والا ہے۔ چنانچہ ان بزرگ نے آپ کو سامنے بلا کر فرمایا بیٹا عبدالقادر ! طالبان حق کبھی کسی کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ پھر انہوں نے آپ سے عہد کیا کہ کبھی سوال نہیں کریں گے۔ چنانچہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ تمام عمر اپنے عہد کے پابند رہے۔ اور بڑی سے بڑی مشکلات میں بھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں فرمایا۔ محترم قارئین! حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ عہد اور یہ عمل اُن پیرزادوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے جو دن رات مریدوں کی جیبوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اور ہر وقت کسی نہ کسی فرمائش اور سوال سے اہل دنیا کے سامنے اپنی عزت اور خاندانی وجاہت کو پامال کرتے ہیں اور سوائے لینے کے کسی کو کچھ دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ حضور اعلیٰ حضرت، حضور محدّث اعظم پاکستان، حضور شمس المشائخ نائب محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم وہ پیر طریقت، رہبر شریعت تھے جنہوں نے حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی تعلیمات کو کماحقہ اپنا اور آج حضور قائد ملت اسلامیہ، نبرہ محدّث اعظم پاکستان سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدّث اعظم پاکستان وام فیوضہ ان بزرگان دین کی تعلیمات کا مظہراتم ہیں۔ فقیر بھی، صاحبزادہ محمد معین الدین رضوی زید شرفہ بھی اور محترم حاجی محمد لطیف چوہدری صاحب وغیر ہم ان تمام امور کے عینی شاہد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here