مردہ جمہوریت!!!

0
30
شبیر گُل

اسلام آباد لہو لہو۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ انتہائی افسوسناک، قابل مذمت حیوانگی ہے ۔ وزرا ،پولیس سربراہان اور اسٹبلشمنٹ بے کی حسی اور غنڈہ گردی بہت کربناک ہے۔ اسلام آباد کے احتجاج میں اپنی جانیں گنوانے والوں اور روشن مستقبل کا خواب سجانے والوں پر سیدھی گولیاں چلانا سفاکیت اور بربرئیت ہے۔ رینجرز پولیس، آرمی سنائیپرز نے جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا۔ ملکی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ ریاست عوام پر حملہ آور ھوگئی۔مہذب معاشروں میں ریاست عوام پر حملہ آور نہیں ھوا کرتی ۔ سیاسی کارکن ہر پارٹی کا ایندھن ھوا کرتے ہیں ۔احتجاج انکا آئینی حق ہے۔ انکے سروں میں سنائیپرز کے ذریعے گولیاں،۔ کیا ملک میں جنگل کا قانون ہے۔یا حیوانوں کی حکومت؟۔ کبھی مارشل لا دور میں بھی ایسی مثال نہیں دیکھی گئی۔قتل عام کے بعد لاشوں کا تمسخر اڑانے والے درندے یاد رکھیں ۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ مکافات عمل سے آپ کو بھی گزرنا پڑ سکتا ہے۔ محسن نقوی ، عطا تارڑ اور مریم نواز کئی روز سے مظاہرین کو روندنے کی باتیں کرتے رہے۔جرنیلوں نے فوج کو عوام کے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ خدا جانے اقتدار کا نشہ انسان کو حیوان کیوں بنادیتا ہے۔ حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ کی بے رحمی قابل مذمت ہے۔ ظلم، جبر، فسطائیت اور قتل عام جمہوری معاشروں کا شیوا نہیں ھوا کرتا۔ عوام پر سیدھی گولیاں ۔آمریت اور فاشزم ھوا کرتا ہے۔ اسلام آباد میں سیکورٹی فورسیز کے ہاتھوں قتل عام کے ہولناک مناظر دیکھ کر محسوس ھوتا ہے کہ ھم درندہ صفت جنرل ڈائر کے دور میں جی رہے ہیں۔ جلیانوالہ باغ جیسی وحشت غیر انسانی فعل ہے۔ دردناک،کربناک اور وحشت ناک ماحول نے پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے۔جمہوری معاشروں میں احتجاج عوام کا بنیادی حق ھوا کرتا ہے۔ عوام کی آواز کو بندوق کی گولیوں سے دبانا کسی مہذب معاشرہ میں نہیں دیکھی جاتی۔ جہاں بھی فوج کا عمل دخل ھو۔ وہاں بندوق کا استعمال یقینی ھوا کرتا ہے۔ جبر زور زبردستی معاشرتی بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ اگر احتجاج کا حق چھینا جائے۔ آواز بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ تو وہاں بلوچستان کے جیسے حالات پیدا ھونا ایک فطری عمل ہے۔ جہاں نوجوانوں کو حقوق مانگنے پر سروں میں گولیاں ماری جائئں۔ پھر وہاں انصاف سے مایوس نوجوان بھی بندوق کی زبان میں بات کرتا ہے۔ ہم یہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سرحدی علاقوں میں بھگت رہے ہیں۔ سیکورٹی ادارے اسلام آباد سے نکل کر بلوچستان اور قبائلی علاقوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائیں ۔ ضم شدہ قبائلی علاقے ، کے پی کے اور بلوچستان مسلسل آگ میں جل رہے ہیں۔ چوکیاں ، انفراسٹرکچر فنڈز ھونے کے باوجود دہشت گرد بلا خوف لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ عوام بے یارومددگار ہے۔ وفاقی ،صوبائی حکومتوں اور ادراروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تخفظ کریں۔ ادارے دہشت گردی سے متعلق پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیکر پالیسی بنائیں۔ اداروں کے ذمہ داری پوری نہ ھونے پر عدم تخفظ بڑھ رہا ہے۔ ان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔عاصم منیر ، چیف جسٹس اور آئی جی خضرات اپنی مدت ملازمت کے بعد بیرون ملک اپنے آقاں کے پاس بھاگ جائینگے۔ عوام یہی رہینگے۔ جن کا یہ ملک ہے۔جرنیل اتنی نفرت بوئیں جس کی فصل وہ کاٹ سکیں۔ اتنا ظلم کریں جتنا وہ سہہ سکیں ۔ حکمرانوں نے سانخہ ماڈل ٹان سے سبق نہیں سیکھا۔ جس کے بعد انکا زوال شروع ھوا تھا۔ اب انکا اس ملک سے بوریا بستر گول ھونے والا ہے۔ یہ درندے دنیا کے کسی کونے میں چھپنے کے لائق نہیں۔ انکے گناہ ہر جگہ انکا پیچھا کرتے ہیں۔ شریفوں نے پاک فوج کو پنجاب پولیس بنادیا ہے۔عوام اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ ہر پارٹی کو احتجاج کا حق ہے۔ احتجاج سے پہلے اسلام آباد کنٹینرز سے بند کرنا۔ وزیرداخلہ، وزیر اطلاعات کی طرف سے دھمکیوں سے اشتعال پیدا کرنا۔مناسب نہیں۔ حکومت اور پی ٹی ضد چھوڑ کر مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں۔تاکہ عوام ذہنی دبا سے باہر آسکیں۔ بزنس کمیونٹی کی پریشانیوں کو بھی دیکھنے ضرورت ہے۔ کنٹینرز مالکان کے نقصانات کو بھی پورا کرنا چاہئے۔ ریاست جبر سے وقتی اپر ہینڈ تو حاصل کرسکتی ہے۔اشرافیہ اپوزیشن کا دبا برداشت نہیں کرپاتی ۔ تشدد اور ظلم کو شعار بنالیاگیا ہے۔ٹکرا کی کیفیت نے معیشت تباہ کردی ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوری کلچر، جمہوری سوچ اور جمہوری مزاج نہ ھونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہیں کرسکتیں ۔ کسی بھی دبا کی وجہ سے یہ پارٹیاں فورا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھو جاتی ہیں۔پاور گیم کے لئے پارٹی پالیسی ہونی چاہئے۔ جس کا ہر پارٹی میں فقدان ہے۔ کارکنان کی تربیت کے لئے پارٹی ڈسپلن کا ہونا ضروری ہے ۔ پارٹی کارکن ہر جماعت کا سرمایہ ھوا کرتا ہے۔ سیاسی سرمایہ کو بار باربغیر تیاری دھرنوں کی کال دیکر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔اسکے لئے ڈسپلین ،شعور اور متانت کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ انٹرنل مسائل کیوجہ سے ایکدوسرے پر بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ جس کا فائدہ حکمران طبقہ کو پہنچ رہا ہے۔ پارٹی کی پرانے اور بنیادی ارکان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مایوس ورکرز کو اعتماد اور گاہیڈنس کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی اپنے آپ کو خود ہی ڈی فیم کررہی ہے۔ انہیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اندرونی لڑائیوں سے پارٹی گائیڈنس ختم ھو جاتی ہے۔ پارٹی لیڈرشپ ورکرز کے لئے گائیڈنگ فورس ھوا کرتی ہے۔ قیادت کے بغیر پولیٹیکل فورسیز بے لگام نظر آتی ہے۔ اگر کسی پولیٹکل فورس کو زبردستی دبایا جائے۔ تو یہ پولیٹکل فورس منفی راہ کیطرف چل پڑتی ہے۔جس کو ہم بی ایل اے کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ اور ایم کیو ایم کی شکل میں بھگت چکے ہیں۔اس وقت تمام قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر بیٹھنا چاہئے۔تاکہ وردی والوں کے کردار کو آئینی حدود میں رکھا جاسکے۔ جو معاشرے کی تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ ھم جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں ۔ظلم کا معاشرہ ہے۔ہر طرف جھوٹ کی یلغار ہے۔ قاتل فورس کیفرشتوں نے سیدھی گولیاں مار کر بیسیوں افراد کو اپنوں سے جدا کردیا۔ جو کسی مہذب معاشرہ میں نہیں ھوتا۔وزیراعظم،وزرا،آرمی چیف، چیف جسٹس۔ پولیس سربراہان ۔ میڈیا،سوشل میڈیا۔ ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ۔ وزراعظم،وزرا،عدلیہ ، جرنیل اور پولیس سربراہان سبھی جھوٹ بولتے ہیں۔ آئین پاکستان کی رو سے جھوٹا، بددیانت، خائن ملک کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ آرمی چیف نہیں بن سکتا۔ جج نہیں بن سکتا۔ ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ھوگا کہ دو نمبر جھوٹے مکار اور چور ملک کے سربراہ ، آرمی چیفس اور چیف جسٹس رہے ہیں ۔ کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ۔جنرل ھوں یا ججز۔ سیاستدان ھوں یا صحافی یہ سبھی پراپرٹی ڈیلرز ہیں۔ مال بنانے کی دھن ان پر سوار ہے۔انکے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسلام آباد کو لہو میں رنگے کے بعد بددیانت صحافی، مکار سیاستدان ، قاتل حکمران اور قاتل جرنیل اتنے بڑے جرم کو کیسے چھپائیں گے۔ ریاست کی یلغار۔ ریاستی غنڈوں نے رات کی تاریکی میں اسلام آباد فتح کرلیا۔ جن غنڈوں نے اسلام آباد فتح کیا ۔ یہ طاقتور غنڈے پارہ چنار اور کرم ایجنسی میں گھس نہیں سکتے۔ بلوچستان دہشتگردوں کے رحم کرم پر چھوڑ کر اسلام آباد اپنے ہی عوام پر شب خون مار رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام میں جنرل عاصم منیر ٹولہ آگ پر تیل ڈال کر حالات کو مزید خراب کررہا ہے۔ پاکستان پرگزشتہ کئی سال سے نخوست کا سایہ ہے۔کئی پارٹیوں کا ملغوبہ۔ کرپٹ عناصر کا ٹولہ مسلط ہے ۔ انہیں پہلے مرزائی جنرل باجوہ کی سپورٹ تھی اور اب ایک سفاک حیوان سے پالا پڑا ہے۔ جو اپنی عوام کو قتل کرنے، ہاتھ توڑنے ، ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ قرآن کی آیات کی غلط تشریح کرتا ہے۔ ریاست نے اپنے ہی لوگوں پر حملہ کرکے اپنے آپ کو دیوار سے لگا لیا ہے۔
کرم ایجنسی میں اب تک دو سو ہلاکتیں ھوچکی ہیں لوگ مورچہ زن ہیں فوج اسلام آباد کی سڑکیں لہو لہان کررہی ہے۔وحشی فوجی درندوں نے بلیک آوٹ کرکے بربرئیت کا مظاہرہ کیا۔ نظام قدرت ہے کہ مظلوم کا خون بولتا ہے۔یہ خون ضرور بولے گا۔ظالم انجام کو پہنچیں گے۔ یہ ظالم مقتولین کا تمسخر اڑاتے ہیں ۔ طاقت کے استعمال کو فخر سمجھتے ہیں۔اللہ بارک فرماتے ہیں ۔میں طاقتور ھوں ظالموں سے مظلوموں کا حساب لیتا ھوں ۔ نوجوان نسل کو کشمیر اور کبھی افغانستان کی جنگ میں جھونکا جاتا ہے ۔ اور کبھی دہشتگرد قرار دے کر گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی انہیں ریاست کا باغی قرار دے کر غائب کر دیا جاتا ہے۔ کبھی انہیں دشمنوں کا آلہ کار قرار دیا جاتا ہے۔ ستر سال سے یہ کھیل جاری ہے۔ یہ کھیل کھیلنے والے قومی مجرم اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر بندوق تھماتے ہیں۔ یہ قومی درندے ہیں جو ان سے انکیخواب اور مستقبل چھنتے ہیں۔ پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے. دنیا کا کوئی قانون کسی فوج کسی پولیس کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ عام نہتے شہریوں پر گولیاں برسائیں. دشمن بھی مر جائے تو خوشی نہیں منائی جاتی خاموشی اختیار کی جاتی ہے. سیاسی مخالفین مافیاز اور ان کے کارندے اتنے بیغیرت ہیں کہ بے گناہ شہید ہونے والوں پر ہنس رہے ہیں. اور رات کے اندھیرے میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والے ایسے خوشیاں منا رہے ہیں جیسے انہوں نے کشمیر فتح کر لیا ہو. افسوس کا مقام ہے ہمارے ملک میں جنگل کا قانون ہے بے شرم مافیا مسلط ہے یہ لوگ ہیں کون ؟۔ جو پاکستان کے اصل مالک عوام) پر ظلم و جبر کرتے ہیں۔ *کیا ان کے مظالم کے احتساب کا آئین میں قانون نہیں۔ ؟ *کیا چیف جسٹس درجنوں شہادتوں پر سو موٹو نہیں لے سکتے۔؟ *کیا مظاہرین کو گولیوں سے بھوننے کے خلاف کسی عدالت کا کبھی دروازہ کھلے گا۔؟ *کیا عوام کا خون اتنا ہی ارزاں ہے ۔ کہ قاتل ٹی وی پر مذاق بناتے پھریں۔؟ جو کام اسٹبلشمنٹ نہیں کرسکی۔ جو نقصان مخالفین نہیں پہنچا سکے۔ گنڈاپور اور بشری بی بی نے پہنچایا۔ پارٹی کارکن مایوس۔ تحریک انصاف کے لئے حالات تنگ۔ عمران خان کا مشکل وقت شروع۔ عمران خان کی ضمانت کی آٹھ درخواستیں منسوخ کرکے آٹھ مزید مقدمات قائم کردئے گئے۔ احتجاج کی آخری کال کو پی ٹی آئی کا مس ایڈونچر کہیں یا مس کال کہیں۔لیڈر شپ نے کارکنان سے دغا کیا۔ کہا جارہا ہے کہ لیڈرشپ کمپرومائزڈ تہے۔ غائب ہوگئے نظر نہیں آئے۔سینکڑوں ایم این ایز، ایم پی ایز، سینٹرز غائب رہے۔ بحرحال کارکن کھڑے رہے۔گولیاں کھاتے رہے۔ جنہیں چاروں طرف سے گھیر کا سیدہے گولیاں ماری گئیں۔ میڈیا خاموش ہے۔ حقائق نہیں بتائے جارہے۔اس قتل عام پر تمسخر نہیں اڑاناچاہئے۔ جو وزرا بھگی بلی بنے تھے۔ ڈر کے چھپ گئے تھے۔گولیاں چلانے کے بعد یہ وزرا اب منظر عام پر آگئے ہیں۔حکومت اور ریاستی اداروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ نوجوان بچوں کو ریاست کے خلاف نہ ابھاریں۔ کل کہیں یہ بچے ریاست کے خلاف بغاوت نہ کردیں۔ہم پہلے ہی ٹی ٹی پی ، بی ایل اے، اور ایم کیو ایم کے دہشت گرد ونگ کو بھگت رہے ہیں۔ موجود صورتحال نے عدم تخفظ اور استحکام پیدا کردیا ہے۔ بلاول کا کہنا ہے کہ استحکام کے لئے ہر حربہ استعمال کرینگے۔ وہ حربہ آپ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں دیکھ چکے ہیں۔ محسن نقوی کی دھمکیاں اور عطا تاڑر کے تمسخر حالات میں تلخی پیدا کررہے ہیں۔ یاد رکھئیے ! قتل نہ کبھی چھا ہے اور نہ لاشیں غائب کرنے سے ۔اس سانخہ میں بچے یتم ہوئے۔ ماں باپ نے لخت جگر کھو دئیے۔ کچھ آنکھیں اور سانسیں ہمیشہ کے لئے بند تو گئیں۔ لیکن قوم کی آنکھیں کھل گئی ہیں کہ وردی والے کتنے ظالم اور سفاک ہیں۔ جو نمازیوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔حکمران ھوں یا اسٹبلشمنٹ ، ہر طرف نوری نت ہی نظر آتے ہیں۔ قارئین!۔ ملک کو ان غیرسنجیدہ سیاسی مسخروں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ سنجیدہ، محب وطن اور نظریاتی قیادت کی ضرورت ہے۔جو نوجوان نسل کو اچھے مستقبل کی امید دلا سکے۔ اسکے لئے جماعت اسلامی ایک بہترین چوائس ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here