لاس اینجلس رقبے میں تقریبا اتنا ہی ہے جتنا ہمارا کراچی یعنی لگ بھگ 500 مربع میل، آگ سے اس کا پانچ فیصد حصہ متاثر ہوا ہے۔ کراچی میں خدانخواستہ اتنے رقبے پر ایسی تیزی سے آگ لگتی تو ہزاروں نہیں، لاکھوں افراد جل کے مر جاتے لیکن امریکا میں زیادہ رقبے کا مطلب زیادہ آبادی نہیں۔ یہ ملک ایک بہت بڑا سا باغ ہے۔ یہاں سیکڑوں میل کا جنگل بھی ہو تو اسے نیشنل پارک کہتے ہیں۔ ہر شہر میں بے شمار درخت ہیں۔امریکا کی متعدد ریاستوں میں موسم مرطوب ہوتا ہے۔ خوب بارشیں ہوتی ہیں۔ ایسٹ کوسٹ یعنی مشرقی امریکا کی ہماری ورجینیا ان میں سے ایک ہے۔ بعض ریاستیں خشک رہتی ہیں۔ ویسٹ کوسٹ یعنی مغربی امریکا کی ریاست کیلی فورنیا کا موسم مختلف ہے۔ کل کسی پاکستانی اخبار میں خبر تھی کہ فلاں پوڈکاسٹر نے پہلے ہی لاس اینجلس میں آگ کے خطرہ سے آگاہ کردیا تھا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ امریکا میں رہنے والے سب باخبر لوگ ایسی باتیں جانتے ہیں۔ مجھے بھی یہ بات پہلے سے معلوم تھی کیونکہ انشورنس کمپنیاں لاس اینجلس کے کئی علاقوں میں کام نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ خشک موسم میں آگ کا خطرہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ سیلاب والے علاقوں سے بھی انشورنس کمپنیاں بھاگتی ہیں۔سب سے بڑی آگ جس علاقے میں لگی، اس کا نام پیلی سیڈز ہے۔ یہاں ہالی ووڈ کے بڑے اسٹارز کے گھر تھے۔ ارب پتی خاندان یہاں رہتے تھے۔ پیرس ہلٹن کا گھر یہاں تھا۔ ہلٹن ہوٹلز کے مالک خاندان کا مکان جل جائے تو کیا وہ بے گھر ہوجائیں گے؟ الٹا پیرس ہلٹن نے اعلان کیا کہ ان کی فلاحی تنظیم لوگوں کی بحالی میں مدد کرے گی۔پاکستان بلکہ برطانیہ میں بھی رہنے والے بعض دوست ایسے خوشی منارہے ہیں جیسے امریکا تباہ ہوگیا ہو۔ یہ ایسی بات ہے جیسے بدبودار کنویں کا مینڈک نعرہ لگائے کہ بحر الکاہل کی وہیل بھوکی مرنے والی ہے۔کیا آپ کو اندازہ ہے کہ امریکا کی معیشت کتنی بڑی ہے؟ یہاں کتنی کمپنیوں کے اثاثے ٹریلین ڈالر ہیں؟ کتنے بلینئیر سرمایہ کار امریکی ہیں؟میں اس سے بڑی بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ میں خود امریکی معاشرے کا مشاہدہ کرکے بتارہا ہوں۔ امریکا پورا بھی جل کر خاک ہوجائے تو چند سال میں وہیں پہنچ جائے گا جہاں اب ہے۔ امریکی قوم اس طرح کی ہے۔ اس میں بے پناہ ذہانت اور ٹیلنٹ تو ہے ہی، یکجہتی اور ایک دوسرے کا درد بہت ہے۔ بل گیٹس کو دیکھیں، بیسیوں ارب ڈالر چیریٹی میں دے چکا ہے۔ میکنزی اسکاٹ کو دیکھیں۔ زکربرگ کو دیکھیں۔ درجنوں ارب پتی اپنی تمام دولت چیریٹی کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔بلینئیرز اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں اور سب طلبہ کے لون ادا کردیتے ہیں۔ حکومت بھی ایسی ہے کہ دسیوں ارب ڈالر دواساز کمپنیوں کو گرانٹ میں دیے کہ کوویڈ کی ویکسین بنا اور پوری دنیا کو مفت لگا۔صدر بائیڈن نے شاید اٹلی جانا تھا لیکن لاس اینجلس کی آگ کا سن کر دورہ منسوخ کردیا۔ حالانکہ ان کی مدت صدارت میں چند دن باقی ہیں۔ کیا وہ نقصانات کو نظرانداز کردیں گے؟ کچھ انشورنس کمپنیاں بھریں گی، کچھ وفاقی حکومت دے گی، کچھ ریاستی انتظامیہ کرے گی۔ کوئی نہ بھی کرے تو ارب پتی خاندانوں کو کس امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔لاس اینجلس کی آگ کو غزہ سے جوڑنے والوں کے لیے ایک تلخ بات اور۔ سات اکتوبر 2023 کو حما س کی دہ شت گر دی کے بعد بھی امریکا نے غزہ کی امداد نہیں روکی۔ تب سے اب تک ایک ارب ڈالر کی خوراک اور اشیائے ضرورت اسرائیل کی مخالفت کے باوجود فراہم کرچکا ہے۔ جب اسرائیل نے تعاون سے انکار کیا تو بحیرہ روم سے غزہ تک کا ہنگامی راستہ بناکر امداد پہنچائی۔ ہوائی جہازوں سے بھی پھینکی۔ ساری دنیا کے میڈیا نے وہ مناظر نشر کیے۔کتنے مسلمان ملکوں نے غزہ میں کوئی سامان پہنچایا ہے؟ چندے کے نام پر حرام کھانے والی تنظیموں نے کوئی لقمہ فلسطینیوں کے حلق میں ڈالا؟ ایران ضرور مالی امداد دیتا ہے لیکن وہ غریبوں کے لیے نہیں، مسلح دہ شت گر دوں کے لیے ہوتی ہے۔ یہ وہ مقدس آگ ہے جو مسلمانوں نے خود بھڑکائی ہے۔ یہ وہ دوزخ ہے جس میں جلنے پر مسلمانوں کو فخر ہے۔ یہ وہ عذاب ہے جو خدا بھیجنا بھول گیا اور مسلمانوں نے بصد اصرار خود پر اتار لیا۔