عہد حاضر کا مرزا غالب!!!

0
153
عامر بیگ

مرزا ارشد علی بیگ سے عقیدت کی حد تک پیار ہے ،وہ حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے نیو جرسی کی مجلس عملہ کے رکن ہیں مرزا غالب کے پڑنواسے ہیں ، اُردو فارسی عربی انگریزی اور کمپیوٹر کی زبانوں کے ماہر ہیں ۔عروض کے استادوں میں شمار ہوتے ہیں ان کے لیے لکھنا میرے لیے اعزاز سے کم نہیں ،اردو شاعری پر ان کی یہ پہلی کتاب شائع ہونے جا رہی ہے لیکن پائپ لائن میں نو عدد شعری مجموعے موجود ہیں جو یکے بعد دیگرے چھپیں گے اور حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے نیو جرسی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ ان کی تخلیقات کو آپ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کرے گا۔ میں ان کے اشعار کو سنتا رہا ہوں ،ان کو پڑھا ہے ،میں یہ عرض کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ مرزا ارشد علی بیگ اپنے” نانا” کی روایات کو زندہ رکھنے میں ضرور کامیاب ہوں گے ، مرزا صاحب ان شعرا میں شمار کیے جائیں گے جنہوں نے اپنے منفرد اندازِ بیان، جذبات کی سچائی، اور زبان کی لطافت سے شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ ان کی شاعری نہ صرف کلاسیکی روایت سے جڑی ہوئی ہے بلکہ اس میں جدید رجحانات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے عہد کے نہایت زیرک اور حساس شاعر ہیں، انہوں نے محبت، فطرت، معاشرت، اور وقت کے بدلتے رجحانات کو اپنے اشعار میں بڑے سلیقے سے سمویا ہے۔مرزا ارشد علی بیگ کی شاعری کا نمایاں پہلو ان کی فکری گہرائی ہے۔ وہ محض لفظوں کے کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ان کے اشعار ایک مکمل فکر اور فلسفہ لیے ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں محبت ایک بلند و پاکیزہ جذبہ بن کر سامنے آتی ہے، جس میں نہ تو جذباتیت کی ارزانی ہے اور نہ ہی سطحی پن۔
مثال کے طور پر، ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
ارشد کسی کے پیار میں وہ درد پائے ہیں
قسمت پہ اپنی ناز کئے جا رہے ہم
ان کے اشعار نہ صرف ان کے جذبات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کی داخلی کشمکش اور حساس طبیعت کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ مرزا ارشد علی بیگ کی زبان میں روانی، سادگی اور شائستگی ہے۔ انہوں نے زبان کو نہ تو غیر ضروری طور پر مشکل بنایا اور نہ ہی اس کی مٹھاس کو ختم ہونے دیا۔ ان کے اشعار میں الفاظ کا انتخاب نہایت نپاتلا ہوتا ہے، جو ان کی فکری پختگی اور فنی مہارت کا ثبوت ہے۔ فارسی کے اشعار کا منظوم ترجمہ بھی فرماتے ہیں اور عروض میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
دل سے تری یادوں کے حوالے نہیں جاتے
اب درد محبت کے سنبھالے نہیں جاتے
مجبور نہ کر دیتی اگر خواہش بے نام
آبا میرے جنت سے نکالے نہیں جاتے
بے ساختہ دل میں کوئی بس جاتا ہے ارشد
قرعے تو کبھی پیار میں ڈالے نہیں جاتے
اگرچہ ان کی شاعری میں کلاسیکی اسلوب کی چھاپ نمایاں ہے، تاہم انہوں نے جدید اردو شاعری کے تقاضوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ ان کے ہاں روایت اور تجدد کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف غزل کے دائرے میں اپنی شناخت قائم کی بلکہ نظم، قطعہ اور رباعی میں بھی طبع آزمائی کی۔
تصور میں تمہارے گدگدی محسوس ہوتی ہے
نظر آجا تو دل کو خوشی محسوس ہوتی ہے
چھپا کر دل میں غم جتنے چھپا لیتے ہیں ہم ارشد
بظاہر دیکھنے میں جو ہنسی محسوس ہوتی ہے
مرزا ارشد علی بیگ کی شاعری محض ذاتی جذبات کی ترجمان نہیں بلکہ اس میں معاشرتی شعور بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے انسانیت، عدل، اور سماجی ناہمواریوں کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ اپنے قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، جو ایک بڑے شاعر کی پہچان ہوتی ہے۔ مرزا ارشد علی بیگ کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو شاعری کو محض فن تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے زندگی کی عکاسی کا ذریعہ بنایا۔ ان کی شاعری احساس، فکر، اور زبان کا حسین امتزاج ہے یہی وجہ ہے ان کے اشعار دل کو چھو جاتے اور پڑھنے والوں کو ایک نئی سوچ عطا کرتے ہیں ان کی پہلی کاوش اور آنے والی دیگر نو تخلیقات کے لیے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here