یہ بھی ایک ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ گذشتہ ماہ کوئینز کے ارد گرد سارے علاقوں میں درجہ حرارت سو ڈگری کو عبور کردیا تھا لیکن کوئینز کے اُس علاقے میں یعنی اسٹوریا میں جہاں میں رہائش پذیر ہوں وہاں درجہ حرارت نناوے ڈگری پر جاکر اٹک گیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ میں قیاس کر بیٹھا تھا کہ اسٹوریا میں بھی درجہ حرارت سو ڈگری کو عبور کرچکا ہوگا لیکن جب میں نے شام کی نیوز دیکھی تو موسمیات دان زور دے کر یہ فرمارہے تھے کہ اسٹوریا اور اِسکے ارد گرد درجہ حرارت 99 ڈگری تک منڈلاتا رہے گا ، اِس لئے اگر ناظرین کوئی سُپر ایڈوینچر کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اپنا دماغ صحیح کرلیں،بارش و طوفان کی طرح لوگ سخت گرمی میں بھی بہانہ مار دیتے ہیں۔مثلا کوئی جان جاناں یہ تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتی ہیں کہ ہائے اﷲ ایسی گرمی میں وہ کس طرح آں سکتیں ہیں، اُن کے پیر میں چھالے پڑجانے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے پھر اِس گرمی میں حجاب پہننے میں دشواری ہوتی ہے، گال پر نکلے ہوئے پسینے حجاب میں جذب ہونے لگتے ہیں، اُس سے چہرا مزید سرخ ہوجاتا ہے یعنی محترمہ زیادہ ہی پرکشش معلوم ہونے لگتیں ہیں، کراچی میں بارش کے دوران ریڈیو پر یہ نغمہ ” اے ابر کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں” اتنا گونجتا تھا کہ کوئی ماہ وشوں گھر سے نکلنے سے کتراتی تھیںکہ کہیں وہ واپس گھر جا نہ سکیں، ویسے نیویارک میں میرے ایک دوست کی گرل فرینڈ نے یہ پیغام بھیجا کہ شدید گرمی کی وجہ سے وہ صرف چڈی اور برا پہنے ہوئی ہے جس سے اُس کے گھر کے قریب امن و عامہ کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، میرے دوست نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ چڈی اور برا کے اوپر چادر اوڑھ کرآجائے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی میں بارش میں کون گھر سے نکلنے کی حماقت کر سکتا ہے البتہ کشتی یا اسپیڈ بوٹ ہو تو سوچا جاسکتا ہے،بہرکیف جس طرح بارش ایک بہانا ہوتی ہے نہ آنے کی اُس طرح گرمی بھی کچھ کام کے نہ کرنے کی بہانا بن جاتی ہے، ہمارے کنٹریکٹر نے یہ فرمان بھیجا ہے کہ سخت گرمی کے دوران وہ کا م کرنے کیلئے سو ڈالر زیادہ چارج کرینگے، میں نے جب دریافت کیا کہ وہ آخر کس لئے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ سوڈا اور پانی پینے کے یعنی موصوف اور اُن کے حالی موالی سو ڈالر کے روزانہ پانی اور سوڈا پی جائینگے، چلو بھائی عیش کرو، یہ امریکا ہے۔
برصغیر ہندو پاک کا کچھ ایسا علاقہ بھارت میں ہے جہاں اتنی سخت گرمی پڑتی ہے کہ زندگی مفلوج ہوجاتی ہے، یہ راجھستان میں سری گنگانگرکے نام سے مشہور ہے، جہاں صبح کے چھ بجے درجہ حرارت
80 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے، اِس سال کے جون میں عموما”درجہ حرارت 117 ڈگری تکرہاہے ، لیکن اِسے آپ کیا قدرت کا عذاب سمجھیں کہ بعض دِن درجہ حرارت دنیا کے بے شمار دوسرے علاقوں کو نظر انداز کرکے 121 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ گیا بہرحال اگر اِس کا مقابلہ پاکستان کی گرمی سے کیا جائے تو پھر بھی یہ کم ہے، عموما”ملتان میں گرمی میں درجہ حرارت 124 ڈگرای فارن ہائٹ تک رہتا ہے لیکن 27 مئی 2010 ء کو درجہ حرارت آسمان سے باتیں یعنی 124 ڈگری کو پہنچ گیا تھا،گرم ہوا کے علاوہ گرد و غبار کا طوفان چلنا بھی اِن علاقوں کا معمول ہے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گرمی پاکستان میں زیادہ پڑتی ہے یا بھارت میں، بھارت کا راجھستان گرمی کے لحاظ سے ساری دنیا میں اتنا زیادہ مشہور ہے کہ امریکا اور ساری دنیا سے ماہرین موسمیات اُس کے مشاہدے کیلئے وہاں کا دورہ کرتے ہیں، سری گنگا نگر کے باسیوں کا کہنا ہے کہ سخت گرمی کی شدت کی وجہ کر وہ گھر کے باہر کام نہیں کرسکتے ہیں،لہٰذا اُس سخت گرمی میں اُنہیں فاقہ کشی بھی کرنا پڑتی ہے، انمول ورما جو ایک آٹو شاپ میں ملازمت کرتا ہے دورہ کرنے والے ایک ماہر کو بتایا کہ وہ دِن میں کئی مرتبہ نہر میںجاکر ڈُبکی لگاتا ہے تاکہ جسم ٹھنڈا رہ سکے، ایک کنسٹرکشن کے پیشہ سے وابستہ مزدور نے کہا کہ جب اُسے بہت زیادہ گرمی لگتی ہے تو وہ کسی درخت کے سائے میں چلا جاتا ہے تاکہ دھوپ کی تپش سے بچ سکے ، ڈاکٹر پورنیما جو ایک میڈیکل سینٹر چلاتے ہیں دورہ کرنے والے ایک ماہر سے کہا کہ اب مقامی لوگ گرمی سے نپٹنے کیلئے ہمہ تن گوش تیار رہتے ہیں،وہ چڑھتے سورج کے اوقات گھر سے باہر نہیں نکلتے ہیں، اور گرمی سے بیمارپڑنے پر وہ گھریلو علاج کرتے ہیں۔برصغیر ہند و پاک میں خصوصی طور پر پاکستان و بھارت میں ایسے کشادہ دِل حضرات کی کوئی کمی نہیں جو موسم گرما کو اپنے گناہوں کو معاف کرانے کا ایک بہترین موقع سمجھتے ہیں،اُنکا کام پیاسے کو پانی پلانا ہوتا ہے، سادہ اور ٹھنڈا پانی پیاسے کو آب حیات ثابت ہوتا ہے لیکن جب سادہ پانی کے علاوہ روح افزا کا شربت مفت مل رہا ہوتو کون ایسے موقع کو ضائع کرتا ہے، معلوم ہوا ہے کراچی میں ایک سخی دِل شخص نے گرمی کے دنوں مفت لسّی تقسیم کرنے کو ترجیح دی اور اُس کے ساتھ یہ نوٹس بھی لگادیا کہ لسّی کے ساتھ ووٹ لینے کا کوئی ارادہ نہیں، واضح رہے کہ لاہور میں لسّی کے ایک گلاس کی قیمت تین سو روپے کے لگ بھگ ہے۔شدید گرمی کا سب سے خطرناک پہلو لُو کا لگ جانا ہوتا ہے، اِس کا علاج جو بارہا بتایا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص کو کسی ٹھنڈے علاقے میں منتقل کیا جائے ، اُس کے کپڑے اُتارے جائیں ، ٹھنڈے پانی یا کپڑے سے اُس کے جسم کو سینکا جائے۔













