فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
75

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! نماز دین کا ستون ہے، ارکان خمسہ میں سے بہت اہم رکن ہے نماز کی پابندی کرنے سے مشکلات آسان ہوتی ہیں، پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔ صبروقناعت وتوکل کی عظیم اور بے پایاں دولتیں نصیب ہوتی ہیں جس کو یہ دولتیں نصیب ہوجائیں وہ جنت کا لطف دنیا میں محسوس کرنے لگتا ہے ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے نماز پوری پابندی سے پانچ وقت ادا کرنی چاہئے بلکہ ساتھ نوافل کی ادائیگی تو سونے پہ سہاگا ہے جسے اللہ تعالیٰ سجدہ کی توفیق عطا فرماتا ہ وہ بڑا مسعود اور نیک بخت انسان ہے لہٰذا اسے پورے اہتمام، توجّہ اور خشوع وخضوع سے ادا کرنا چاہئے کیونکہ خشوع وخضوع والوں کی نماز اللہ کی بارگاہ اقدس میں مقبول ہے۔ اسی وجہ سے قرآن پاک اور حدیث مبارکہ میں خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کی مدح وتعریف کی گئی ہے اور جو اس کے بغیر پڑھتے ہیں ان کی مذمت بیان ہوئی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا ارشاد گرامی ہے کہ ہم اور سّید عالم ۖ آپس میں باتیں کر رہے ہوتے تھے کہ نماز کا وقت آجاتا۔ تو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے ہم ایسے ہوجاتے جیسے ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں۔ یعنی پورے انہماک کے ساتھ نماز کی تیاری میں لگ جائے۔ فرمان نبوی علیہ الصّلواة والسّلام ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نماز کی طرف نہیں دیکھتا جس میں انسان کا دل اس کے بدن کے ساتھ شامل عبادت نہیں ہوتا۔(مکاشفہ القلوب) نبی پاکۖ نے ایک آدمی کو حالت نماز میں دیکھا کہ وہ اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے آپ ۖ نے فرمایا: اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء پُرسکون ہوتے۔ نبی پاکۖ کا ارشاد مقدس ہے کہ جس نے اچھی طرح وضو کر کے وقت پر نماز ادا کی خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع وسجود کو مکمل ادا کیا تو اس کی نماز سفید، چمکتی ہوئی بلند ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تیری حفاظت فرمائے جس طرح تو نے میری حفاظت کی اور جو شخص کامل وضو کے ساتھ وقت پر نماز ادا نہیں کرتا تو اس کی نماز بوسیدہ کپڑے میں لپٹی ہوئی بلند ہوتی ہے اور کہتی ہے اللہ تعالیٰ تجھے برباد کرے جیسے تو نے مجھے ضائع کیا یہاں تک کہ وہ وہاں جاتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس کو بوسیدہ کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ اللہ الصمد! کس قدر اہم اور ضروری ہے نماز کا فریضہ جسے ترک کرنے میں اکثر مجرم ہیں۔ بعض جو پڑھتے ہیں وہ بھی خدا کی پناہ بس مسجد کو تو جیل خانہ اور پنجرہ سمجھتے ہیں۔ ابھی آئے اور تیزی سے بیت الخلاء گئے۔ جلدی سے وضو کیا اور مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر نماز ادا کی اور سر پر پائوں رکھ کر بھاگتا بنا۔ العباذ باللہ، ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہم اسلام کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں مسلمان ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔
سّیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب نماز کا ارادہ کرتے تو آپ کا جسم کانپنے لگتا اور دانت بجنے لگتے۔ آپ سے آپ کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: امانت کی ادائیگی اور فرض کے پورا کرنے کا وقت قریب آگیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ اسے کیسے ادا کروں گا۔ اسی طرح جب نماز کا وقت آتا تو مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوجاتا اور آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ پوچھا گیا اے امیر المئومنین آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اس ادائیگی کا وقت آگیا ہے جسے رب تعالیٰ نے آسمان وزمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر انہوں نے معذرت ظاہر کر دی تھی اور میں نے اٹھا لیا۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ وضو فرماتے تو ان کا رنگ متغیر ہوجاتا، گھر والے کہتے آپ کو وضو کے وقت کیا تکلیف لاحق ہوجاتی ہے آپ جواب دیتے، جانتے نہیں ہو، میں کس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی تیاری کر رہا ہوں؟ یعنی جب اتنی بڑی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے تو رعب وجلال سے مرعوب ہونا لازمی ہے تاکہ بارگاہ کا فیض مکمل طور پر حاصل ہوسکے۔ حضرت خلف بن ایوب علیہ الرّحمتہ نماز میں تھے کہ انہیں کسی جانور نے کاٹ لیا اور خون بہنے لگا۔ مگر انہیں محسوس نہ ہوا۔ یہاں تک کہ ابن سعید علیہ الّرحمہ باہر آئے اور انہوں نے آپ کو بتایا اور خون آلود کپڑا ادھویا۔ پوچھا گیا آپ کو جانور نے کاٹ لیا اور خون بھی بہا مگر آپ کو محسوس تک نہیں ہوا؟ آپ نے جواب دیا۔اُسے کیسے محسوس ہوگا جو ربّ ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہو اُس کے پیچھے ملک الموت، بائیں طرف جہنم اور قدموں کے نیچے پل صراط ہو؟ حضرت عمر وبن ذرعلیہ الرحمہ جلیل القدر عابد اور زاہد تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک ایسا زخم پڑ گیا کہ طبیوں نے کہا، اس ہاتھ کو کاٹنا پڑے گا۔ آپ نے کہا تو کاٹ دو طبیوں نے کہا آپ کو رسیوں میں جکڑے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ آپ نے کہا ایسا نہ کرو۔ بلکہ جب میں نماز شروع کروں تو تب کاٹ لینا۔ تو جب آپ علیہ الّرحمہ نے نماز شروع کر لی تو آپ کا ہاتھ کاٹ لیا گیا مگر آپ کو محسوس بھی نہ ہوا۔اللہ تعالیٰ کو ایسے نمازیوں اور ایسی نمازوں کی قدر ہے۔ وہ ان بندوں کو اتنا نوازتا ہے کہ اپنا خاص قرب عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے فیضان سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here