میئر کے امیدوار ظہور ممدانی کیلئے حسد و جلن کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں، لوگ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ درخت کا کوئی پتا گرے تو وہ چیخ پڑیں کہ ارے ارے ممدانی نے اِس ہرے بھرے درخت کے پتوں کو اُجاڑنا شروع کردیا ، درختوں کی مانگ جلی ہوگئی ، کیسا ظالم و جابر انسان ہے حالانکہ درخت کے پتے طوفانی ہوا کی وجہ سے اُڑ گئے تھے۔ اب دوسری مثال لیجئے کہ کسی طرح کسی نے یہ پتا چلا لیا کہ میئر کے امیدوار ظہور ممدانی جس اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں وہ سبسڈائزڈ ہے، ممدانی اُس ایک بیڈ روم کا کرایہ دوہزار تین سوڈالر ماہانہ ادا کرتے ہیںاگر وہ سبسڈائزڈ نہ ہوتا تو ممدانی کو اُس کا کرایہ تین ہزار ڈالر ادا کرنا پڑتا لیکن قصہ پارینہ اِس کے پس منظر میں یہ ہے کہ ممدانی نے اُس اپارٹمنٹ کو اُس وقت لیا تھا جب وہ گھروں سے بیدخلی کو روکنے والے کونسلر کی حیثیت سے ملازمت کیا کرتے تھے اور اُن کی تنخواہ 47 ہزار ڈالر سالانہ تھی لیکن جب اُنہوں نے اسٹیٹ اسمبلی مین کا انتخاب جیت لیا تو اُن کی تنخواہ ایک لاکھ بیالیس ہزار ہوگئی۔ میئر کے امیدوار ظہور ممدانی کا موقف یہ بھی ہے اُس وقت اُنہیں یہ بھی پتا نہ تھا کہ وہ جس اپارٹمنٹ کو کرائے پر لے رہے ہیں وہ سبسڈائزڈ ہے۔ صرف یہی نہیں الزام تراشی کرنے والوں کی کوئی حد نہیں، کسی نے اُن کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ جب وہ سکول میں پڑھا کرتے تھے تو لڑکیوں نے اُن پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ اُنہیں آنکھیں مارا کرتے تھے، پرنسپل کے ساتھ ایک کانفرنس میں یہ بات منظر عام پر آئی کہ اُن کی آنکھیں ہی کچھ ایسی ہیں، کوئینز کے ایک شخص نے ممدانی کے بارے میں کہا کہ وہ مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن شاذونادر ہی اُس نے کبھی اُنہیں مسجد میں دیکھا ہے، اور جب کبھی دیکھا ہے تو وہ تقریر کرنا شروع کردیتے ہیں،پہلے تو لوگوں کو امام کا خطبہ سننا پڑتا ہے ، اور اُس کے بعد سیاتدانوں کی تقریریں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگوں کو کچھ اور کام کاج نہیں رہ گیا ہے؟ حتیٰ کہ میئر ایرک ایڈمز بھی جو کرپشن کے الزام میں راندہ درگاہ ہوئے تھے ۔اُن پر یہ الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے ایک سسٹم جس کے ذریعہ انتہائی ضرورت مندوں کو اپارٹمنٹس فراہم کرنا تھا اُس کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی ہیں،اُنہوں نے کہا کہ یہ ایک اخلاق سوز امر ہے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو غریب عوام کا رہنما ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ایک ایسے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہے جو بے گھروں کیلئے مخصوص تھے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں نیویارکرز شیلٹر یا سڑکوں پر سوتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ وہ برانسویل میں پیدا ہوئے تھے اور اُنہیں اچھی طرح تجربہ ہے کہ ایک شخص کو زیر چھت رہنے کیلئے کس طرح کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ ظہران ممدانی اُس اپارٹمنٹ میں اپنی اہلیہ راما دوواجی کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ اُن کے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ والدین تا ہنوز اسٹائلش ریور سائیڈ کے اپارٹمنٹ جس میں تین بیڈ اور تین باتھ روم ہیں میں رہتے ہیں، ممدانی کے پاس یوگنڈا میں بھی چار ایکڑ قطعہ اراضی موجود ہے جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ سے ڈھائی لاکھ ہے۔اُن کے والد محمود ممدانی جو کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں سال کے تین لاکھ پندرہ ہزار ڈالرگھر لاتے ہیںجبکہ والدہ میرا نیر جو اکیڈیمی اور گولڈن گلوب کے فلمی ایوارڈز کیلئے نامزد ہوچکی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ بائیس ملین ڈالر کی مالکہ ہیں۔وہ ایک فلم پروڈیوسر ہیں،ممدانی کی شادی کی تقریب بھی جو تین براعظم امریکا، ایشیا اور افریقہ میں انجام پائی تھی لوگوں کیلئے موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے، کہا جاتا ہے کہ یوگنڈا کی تقریب ایک محل میں انجام پائی تھی اور حفاظت کیلئے گارڈز تعینات کئے گئے تھے جبکہ ٹیلیفون جامرز کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔
ممدانی کے کیمپ نے سابق گورنر کومو اور میئر ایڈمز کی تنقیدوں کو نظرانداز کردیا ہے، اُن کے ترجمان نے کہا ہے کہ گورنر کو مومحض ووٹروں کو گمراہ کرنے کیلئے اناٹ شناٹ بیان دے رہے ہیں، رپورٹروں کو مغلظا ت سنانا ، غلط میڈیا میں پوسٹ کرنا اور ذاتیات پر اُتر جانا محض جنسی ہراسگی ، کرپشن اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کو چھپانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ سابق گورنر کومو خود تو سال دو سال سے نیویارک میں منتقل ہوئے ہیں اور منہاٹن کے ایک پوش علاقے میں ایک رہائش گاہ آٹھ ہزار ماہانہ ڈالرکرائے پر لیا ہے۔اُنہوں نے اپنی سالانہ آمدنی کا گوشوارہ نصف ملین ڈالر بتایا ہے جیسا کہ اُنہوں نے کہا ہے کہ یہ آمدنی انھوں نے اپنے موکل کو مشورہ دینے سے حاصل کی ہے،اِس میں کوئی شک نہیں کہ گورنر کومو
کسی کو مفت مشورہ نہیں دیتے ، اُس سے ووٹ لینے میں تو وہ پیش پیش ہیں لیکن قانونی مشورہ دینے میں پہلے فیس ادا کروکے اصول پر قائم ہیں۔ظہران ممدانی کی ایک لاکھ بیالیس ہزار ڈالر کی سالانہ آمدنی پر نیویارک میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے اور ماہر معاشیات یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا یہ واقعی میں اُنہیں امیر ترین طبقے کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔نیویارک کی ہوشربا مہنگائی ، آسمان کو چھونے والا مکان کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ یا دو لاکھ کی سالانہ آمدنی کو پھلجھڑی کی طرح اُڑادیتا ہے، ہاں! اگر یہ آمدنی امریکا کے کسی دوسرے شہر میں ہو تو اُسے امیر شخص میں شمار کیا جاسکتا ہے،نیویارک شہر میں ایک اسٹوڈیو کا کرایہ تین ہزار دو سو ڈالر ہے ، جبکہ ایک ہزار فینکس میں اور بارہ سو ڈالر ہیوسٹن میں ہے، ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب نیویارک کے باسی اپنی نصف آمدنی کو کرائے دینے پر خرچ کر دیتے ہیں۔














