بھارتی اشتعال انگیزی پر پاکستان کا ردعمل!!!

0
52

آئی ایس پی آر نے بھارت کے اعلیٰ عسکری اور سیاسی رہنمائوں کے حالیہ بیانات پر سخت ردعمل جاری کیا ہے۔یہ ردعمل جارحانہ تکرار نہیں، بلکہ اس کے تانے بانے ایک دیرینہ سرحدی تنازع کشمیر، تازہ کشیدگی اور خطے کی حساس تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ جمعرات کو بھارت کے وزیرِ دفاع کے اس بیانیے کے بعد کہ پاکستان سر کریک کے نزدیک فوجی انفراسٹرکچر تیار کر رہا ہے اور اس جگہ کے حوالے سے فوجی نوعیت کے اشارے دیے گئے، پاک فوج نے واضح طور پر کہا کہ پڑوسی ملک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جارحیت کے لیے من گھڑت بہانے تراشنے کی کوشش کر رہی ہے اور اگر کوئی مہم جوئی کی گئی تو اس کا ہولناک جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کایہ لہجہ محض ردِعمل نہیں بلکہ ایک قومی دفاعی پالیسی کی جانب سے خبردار کرنے کا انداز بھی ہے۔ سر کریک کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ وہ 96 کلومیٹر طویل دلدلی علاقہ ہے جو سندھ اور گجرات کے درمیان واقع ہے اور جس پر دونوں جانب سے مختلف تاریخی اور قانونی بنیادوں پر دعوی کیا جاتا ہے۔ اس کی حساسیت محض جغرافیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی سمندری حدود، اقتصادی مفادات اور بار بار پیش آنے والے پانیوں کی حدود کے تنازعات کی وجہ سے ہے۔ اسی لیے چھوٹی سی پیشقدمی یا بیان بازی بھی بڑے تنازعات کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ تاریخی تناظر میں سر کریک جیسے علاقوں میں غلط فہمی سے پیدا شدہ واقعات نے خطے کو خطرناک موڑ پر کھڑا کیا ہے، اس لیے الفاظ اور کسی اقدام میں پہل کا معاملہ انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ آئی ایس پی آر کے اشارے میں ایک اور نکتہ برجستہ ہیکہ رواں برس مئی میں جو حالات پیدا ہوئے وہ دو ایٹمی قوتوں کو جنگ کے دہانے تک لے آئے تھے۔ اب اسی تاریخی تلخی کو یاد رکھتے ہوئے پاک فوج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس مرتبہ ردِعمل ‘نیو نارمل’ ہوگا۔ یعنی فیصلہ کن اور تباہ کن ۔ اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ قوم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ دفاعی خودداری کے تقاضے اپنے عروج پر ہیں اور عسکری قیادت نے اپنی تیاری، صلاحیت اور عزم کو واضح کر دیا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ طاقت کا اظہار متناسب، دانشمندانہ اور عالمی قوانین کے دائرے میں رہے تاکہ جنگ کے خوفناک نتائج سے بچاو ممکن ہو۔ اس پس منظر میں جو سوال اہم بنتا ہے وہ یہ ہے کہ عسکری عزم اور سفارتی حکمت کو کیسے ہم آہنگ رکھا جائے؟ پاکستان کی بہادر افواج کی قابلیت، قابلِ فخر دفاعی قوت اور عوامی حوصلہ کسی سے مخفی نہیں؛ یہ وہ ستون ہیں جو کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی ضمانت دیتے ہیں۔ تاہم ایک مضبوط عسکری رد عمل کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ پالیسی ساز طبقات مذاکرات کو مستقل حل کے طور پر اپنائیں۔ تنازعات، چاہے سر کریک جیسے پیچیدہ مسائل ہوں یا دیگر سرحدی جھگڑے، فوجی تنازع کی صورت میں جانی نقصان کرتے ہیں۔ مستقل امن اور خطے کے عوام کی بہبود کے لیے مذاکرات، ٹیکنیکل میٹنگز اور اعتماد سازی کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس نقطہ نظر سے عسکری طاقت کو ایک قابلِ عمل پشت پناہی سمجھا جانا چاہیے، نہ کہ مسائل کا واحد حل۔ عالمی اور علاقائی شراکت داروں کا کردار اس موقع پر کلیدی ہے۔ جب بیان بازی بڑھتی ہے تو بیرونی ثالثی، دوستی اور بین الاقوامی قانونی فورمز اس تناو کو قابو میں رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی سفارتی صلاحیت کو متحرک رکھتے ہوئے اپنے موقف کو واضح، منطقی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پیش کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا غلط بیانیوں اور پروپیگنڈے کے بجائے حقائق کی روشنی میں واقعات کو دیکھے۔ فوجی تیاریاں اگرچہ اعتماد پیدا کرنے والی ہیں، مگر سفارتی محاذ پر شفافیت اور رابطے کشیدگی کم کرنے کے لیے موثر ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔ میڈیا، تجزیہ کاروں اور عوامی بیانیے کی ذمہ داری بھی اس دور میں بڑھ جاتی ہے۔ سنجیدہ اور متوازن تجزیہ ایسے لمحات میں امن کی حمایت کرتا ہے جب کہ بے بنیاد اشتعال انگیزی نقصان دہ فضا کو ہوا دے سکتی ہے۔بھارتی میڈیا آگ کو ہوا دے رہا ہے۔ عوام کو حقائق کے ساتھ ساتھ ملک کی پالیسیوں اور محاذِ خارجہ کی حکمت عملی سے آگاہ کرنے کا عمل معاشرتی قوت کو بڑھاتا ہے اور کسی بھی غیر ضروری کشیدگی کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح، ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تشریحات میں احتیاط برتیں تاکہ تصادم کے خطرناک امکانات محدود رہیں۔ممکن ہو تو سعودی عرب، چین اور امریکہ سے اس بابت بات کی جائے۔یہ امر واضح ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس کے محافظ پرعزم، بہادر اور ہنر مند ہیں مگر یہ تیاری امن کے حصول کے عزم کے ساتھ مل کر ہی اہمیت رکھتی ہے۔ عسکری قوت اس وقت معتبر اور تعریف کے قابل ہے جب وہ قوم کی سلامتی کے ساتھ ساتھ مذاکراتی حل کے لیے راستے کھولنے کا بھی ذریعہ بنے۔ الفاظ کی شدت اور قوتِ بازو دونوں قومی مفاد کے مطابق متوازن رہیں تو خطے میں استحکام کے امکانات روشن رہیں گے ۔بھارت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جذباتی زبان اور بے ضابطہ عمل تباہ کن نتائج کی چنگاری ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہذا بہتر راستہ یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر آگے بڑھا جائے، تنازعات کی فہرست بنائی جائے، اپنا اپنا موقف ریکارڈ کیا جائے اور پھر متنازع امور کو طے کرنے کے لئے مکالمہ کو بروئے کار لایا جائے۔دھمکیوں اور جنگ کی باتیں بھارت کو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دے سکیں گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here