علامہ اقبال عالمی شہرت یافتہ شاعر اور فلسفی ہیں جنہوں نے فلسفہ خودی کو اپنی شاعری کا مرکز و محور قرار دیا اور اقوامِ عالم کو خودی، خود شناسی ، خود داری ، خود انحصاری اور خود اعتمادی کا درس دیا۔ علامہ اقبال نے آنے والے زمانے کے غیاب کو بھی بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا تھا!
نغمہ ام اززخمہ بے پرواستم
من نوائے شاعرِ فرداستم
آپ ایک عظیم فلسفی ،نباضِ عصر، مفسر و مفکر قرآن ، حکیمِ امت، ترجمانِ حقیقت اور شاعرِ مشرق تھے۔ ایک مصلح اور مجدد کی حیثیت میں یہ اعلان انہیں کو سجتا ہے جب وہ فرماتے ہیں!
نغمہ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار میکشم ناق بے زمام را
اِس مصور پاکستان کی فکر کی ترویج کے سلسلہ میں فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں ایک کانفرس کا اہتمام کیا گیا۔ شعبہ اردو کی چیرپرسن ممتاز ماہرِتعلیم اور نقادِ ادبیات ڈاکٹر فرحت جبین ورک نے اس کامیاب کانفرس کا انعقاد کیا۔ اِس تقریب کی صدارت کا اعزاز مجھے حاصل ہوا جبکہ مہمانِ خصوصی اقبال شناس ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جرنل ہارون اسلم تھے۔ کلیدی خطاب عالمی شہرت یافتہ ادبی نقاد و دانشور ڈاکٹر سید تقی عابدی آف کینیڈا کا تھا۔تقریب کا آغاز ڈاکٹر فرحت جبین کی پر مغز اور فکر انگیز تقریر سے ہوا اور شعب اردو کی ڈاکٹر حلیمہ طارق نے نظامت کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیے اور عمدہ گفتگو بھی کی۔ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ پروفیسر عزیرہ رفیق صاحبہ نے علامہ اقبال پر خوبصورت اور معنی خیز خطاب کیا اور اقبال شناس دانشوروں کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں معروف ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ اسلامک الحمد یونیورسٹی اسلام آباد کے شعب اردو کے چیئرمین ممتاز ادبی نقاد و دانشور ڈاکٹر شیر علی نے خصوصی شرکت کی۔ علاوہ ازیں ادبی دنیا کی ممتاز شخصیات ڈاکٹر خالد اقبال یاسر ، ڈاکٹر ذوالفقار علی، اور ڈاکٹر ثروت تبسم کی موجودگی نے محفل کو دو آتشہ بنادیا۔ یونیورسٹی کی ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔علامہ اقبال پر منعقد اس تقریب کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اقبالیات کانفرنس میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تازہ تصنیف باقیاتِ اقبال پر انہوں نے سیر حاصل گفتگو کی اور نئی نسل کو علامہ اقبال کے متداول اور باقیات کا مطالعہ کرنے کی افادیت پر نہایت پر مغز لیکچر دیا۔ ڈاکٹر تقی عابدی کینیڈا میں مقیم ہیں اور میڈیکل کے شعبہ سے منسلک ہیں مگر ان کی اردو ادب کی خدمات قابلِ صد ستائش ہیں۔ آپ نامور نقاد اور دانشور ہیں۔ تا حال آپ کی ستر سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ باقیاتِ اقبال میں علامہ اقبال کا متروک فارسی و اردو کلام شائع کیا گیا ہے اور اس کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ نہایت بصیرت افروزی سے لیا گیا ہے جس پر وہ داد و تحسین کے حقدار ہیں۔وہ اپنے آپ کو وکیلِ اردو کہتے ہیں جبکہ میں نے انہیں چند سال قبل نیویارک امریکہ میں ایک ادبی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے انہیں سفیرِ اردو کا خطاب دیا تھا۔لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلام اقبال شناس اور عاشقِ اقبال ہیں۔ آپ نے علامہ اقبال پر بصیرت افروز تقریر کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ اقبال فہمی اور اقبال شناسی کے لیے نوجوان نسل اردو زبان پڑھے اور قومی زبان کو فروغ دیا جائے۔ آپ نے علامہ اقبال کو انقلابی اور فلسفی شاعر قرار دیتے ہوئے علامہ اقبال کے اِس شعر کو قوموں کے لیئے حرزِ جاں قرار دیا!
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
میں نے اپنی صدارتی تقریر میں تفصیل سے علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ پر گفتگو کی ۔ چند نکات اختصار سے پیش کر رہا ہوں – میں نے عرض کیا کہ حال ہی میں اقبال اکیڈمی لاہور نے میری انگریزی زبان میں کتاب The Message of Iqbal شائع کی ہے جس میں جدید تقاضوں کے پیشِ نظر میں نے اقبالیات کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی ہے۔ علامہ اقبال کا کلام بحرِ بیکراں ہے جس میں متلاطم امواج ہیں۔علامہ اقبال کی شاعری کی کئی ابعاد ہیں اور اقبال شناسی کے لیے بڑے وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ خود فرما گئے ہیں
پس از من شعرِ من خوانند و دریا بند و میگویند
جہانے را دگر گوں کرد یک مردِ خود آگاہے
علامہ اقبال کو اپنی خدا داد صلاحیتوں کا احساس تھا۔اپنی پیدائش کے بارے میں خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سین کائنات میں
آپ دانائے راز تھے اور فرماتے ہیں
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ
اِس محرمِ رازِ درونِ میخانہ کی زبان پر بسترِ مرگ پر یہ رباعی جاری تھی
نسیمے از حجاز آید نہ آید
سرورِ رفتہ باز آید نہ آید
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید نہ آید
اس دانائے راز نے آزادی ، انقلاب، مساوت، انسانیت اور وحدتِ ملتِ اسلامیہ کے نغمے گائے ۔ غلامی کی زنجیروں کو ضربِ آہنی سے پاش پاش کرتے ہوئے فرمایا
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حق کی آنکھ ہے بینا
میں نے عرض کیا کہ اگر پاکستانی قوم علامہ اقبال کے اِن چار اشعار کو وظیف زندگی اور منشورِ حیات بنا لیتی تو کشتی ساحلِ مراد پر جا لگتی اور فیض احمد فیض کو یہ نہ کہنا پڑتا
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
علامہ اقبال فرماتے ہیں
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو
جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر گوش گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیس اسے اٹھا دو
سلطانء جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
٭٭٭














