سردار محمد نصراللہ
ویسے تو کورونا نے بہت سے شناساﺅں اور جان پہچان والوں کو نگل لیا ہے، فہرست ہے کہ طویل ہوتی جا رہی ہے لیکن میرے دو بڑے عزیز دوست میاں اشرف اور شیخ سید طیب بھی لقمہ اجل بن گئے ہیں ، اس وبا کے جس نامراد کو ہم کرونا کہتے ہیں، دونوں دوستوں کےساتھ ایک بھرپور زندگی ہنستے کھیلتے لڑتے جھگڑتے گزری، شیخ طیب سے تقریباً چالیس سال سے زیادہ کی دوستی کا تعلق رہا اور میاں اشرف کےساتھ بھی تقریباً 30 سال کا ساتھ رہا۔ دونوں ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، دونوں اپنے اندر ایک انجمن تھے، ایک دولت مند ہونے کے باوجود سادہ درویش اور دوسرا درویشی دونوں کےساتھ بڑی تند وتیز زندگی کے دن اس غریب شہر سے گزارے۔ میاں اشرف اپنے کولیگ نوید عالم کےساتھ جب نیویارک پہنچے اور گرین پوائنٹ کے علاقے میں اپنی رہائش اور کاروبار کا آغاز کیا لیکن شام کو آندھی طوفان کی پرواہ کئے بغیر جیکسن ہائٹ کوئینز میں شاہین ریسٹورنٹ میں تشریف لاتے جہاں ایک اور ہمہ گیر شخصیت بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ادبی دنیا اور مہمان نوازی کا دیو ہیکل جوہر میر صاحب مرحوم بھی آیا کرتے تھے۔ غریب شہر کی بیٹھک بھی اسی ریسٹورنٹ میں ہوا کرتی تھی۔ دیکھتے دیکھتے جوہر میزکی ٹیبل اور میری (سردار نصر اللہ) کی ٹیبل ایک ہو گئی اور اس طرح میاں اشرف سے دوستی ہو گئی۔ ہماری دوستی نہ ہمالیہ تھی نہ سمندر، بلکہ اخوت، محبت کے جذبہ سے بھرپور تھی، میاں صاحب کی زندگی کے عقیدہ کھلتے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ شاعر بھی ہیں، ادیب بھی اور کالم نگار بھی جوہر میر کی سربراہی میں حلقہ¿ ارباب ذوق بنا تو وہ اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور جوہر میر کی زندگی تک باقاعدہ ہر ہفتہ اس کا اجلاس بلاتے انہوں نے پاک و ہند کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں، نقادوں کو حلقہ¿ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم پر عزت بخشی۔ وہ ہفتہ روز عوام اخبار میں کالم بھی لکھتے تھے جس میں وہ کبھی کبھی ڈنڈی مارتے اور دوستوں کی دل آزاری بھی کر دیتے۔ ایک بار ان سے لڑائی بھی ہو گئی اور نوبت مرنے مرانے تک پہنچ گئی پھر مرحوم واحد بخش بھٹی اور شیخ طیب نے صلح کروا دی اس کے بعد ان کی آخری سانس تک کبھی ایسی غلطی نہ ان کی طرف سے ہوئی اور نہ میری طرف سے۔ پھر وہ میرے پیر بن گئے اور میں ان کا مرید، میاں صاحب پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور انہوں نے اور نوید عالم دونوں نے ایوب کی بھٹو کی اور جونیجو کی کیبنٹ میں مرکزی وزیر یاسین وٹو کے جونیئر کے طور پر اپنی وکالت کی ابتداءکی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قصہ کہانیاں اور واقعات خُوب سناتے جس کی وجہ سے میں ان کا دلدادہ تھا میں اکثر تنہائی میں ان کی سنائی ہوئی کہانیاں، لطیفے اور واقعات کو یاد کر کے خود ہنسنا شروع کر دیتا ہوں اور اب اپنی آخری سانس تک وہی یاد کرتا رہوں گا۔
قارئین وطن! کیسے کیسے اچھے دن میاں اشرف اب مرحوم لکھتے ہاتھ کانپ رہے ہیں ،میاں صاحب نے حکم دیا کہ سردار صاحب ہم نے فیض احمد فیض کا میلہ منانا ہے میں نے کہا ضرور واہ کیا زبردست میلہ کا اہتمام کیا۔ سال تو یاد نہیں لیکن اس دن سے ایک واقعہ میری یادوں کےساتھ منسوب ہے۔ ہمارے ایک اور بھائی اور بڑے نفیس شخصیت اعجاز ملک کو امیگریشن والے اُٹھا کر لے گئے فیض میلا کھچا کھچ لوگوں سے بھرا پڑا تھا خالد حسن مرحوم، امروز اخبار والے اکمل علیمی، جوہر میر، خلق خدا کےساتھ اسٹیج سیکرٹری جو کہ راقم تھا کا انتظار کر رہے تھے میاں صاحب مجھے فون کر رہے تھے ، میں اور رئیس شہر قمر بشیر ملک صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے لانے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ رئیس شہر ایسے ہی نہیں قمر بشریٰ کا نام پڑھا گیا ان کی مہربانیوں اور شفقتوں اور انعام عباسی مرحوم کی کاوشوں سے شام تقریباً ساڑھے چھ بجے نکالا اور کوئی آٹھ بجے میلا شروع کیا میلہ ایسا جمع کہ آج تک لوگ یاد کرتے ہیں۔
قارئین وطن! میاں اشرف کی زندگی کی د وسری فلم اس وقت چلنی شروع ہوئی جب حلقہ¿ ارباب ذوق کے بانی جوہر میر کا انتقال ہو گیا ،اس کے بعد وہ حلقہ¿ کو جیکسن ہائٹس سے ہٹا کر بروکلین لے گئے پھر کیا تھا ادبی شور شرابہ رکنے والے حلقہ پر قبضہ کرنے آگئے، میں قمر بشیر اور انعام عباسی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور جب ان کا بس نہیں چلا اور وہ قبضہ نہیں کر سکے تو ان لوگوں نے الگ سے حلقہ¿ ارباب ذوق بنا لی اور اخباری طاقت اور دولت کا سہارا لے کر اپنا شو شروع کر دیا۔
میاں صاحب بڑے دل کے مالک تھے انہوں نے اسی ماں کی مانند اپنے بچے کے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر حلقہ¿ ارباب ذوق قبضہ گروپ کے حوالے کر دی تاکہ شاعر و ادیب تقسیم نہ ہوں پھر اس کے بعد انہوں نے رومی سینٹر کی بنیاد ڈالی اور وہیں سے ایک انمول نگینہ 125 کتابوں کے مصنف پروفیسر شاعر ادیب، نقاد، سیاستدان، دانش ور، عصر مقصود جعفری سے ملاقات ہوئی وہ بھی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔
میاں اشرف کے رومی سینٹر کو چلانے کیلئے بہت سے دوستوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، رئیس شہر قمر بشیر نے دو تین فنڈریزنگ بھی کئے مگر شومئی قسمت کسی دل جلے نے سینٹر کو خاک میں ملا دیا، سینٹر کیا جلا میاں اشرف جل گیا۔
قارئین وطن! جہاں اچھے دوست ہوں، وہاں دوستوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا جاتا ہے خادم نے ان کی مایوسی کو بھانپے ہوئے ان کےلئے اخبار نکالنے کا پروگرام بنایا ایک شام ان کے دولت خانہ پر پروفیسر مقصود جعفری، اقبال کھوکھر، انعام عباس مرحوم، اور خادم جمع ہوئے پروفیسر مقصود جعفری دانش عصر چیف ایڈیٹر میاں اشرف ڈپٹی ایڈیٹر اقبال کھوکھر، پبلشر انعام عباسی، پی آر او اور خادم چیئرمین اور میرے فرائض منصبی میں دوستوں کو فون کرنا اور اخبار کیلئے فنڈ اکٹھے کرنا تھا اخبار کا نام پاکستان ویکلی رکھا گیا شعیب بن عزیز مشہور دانشور اور شاعر جن کا شعر تھا کیوں اُداس پھرتے ہوئے سردیوں کی شاموں میں، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، کی نگرانی میں اخبار تیار ہوتا تھا کوئی 37 شمارے نکلے اس کے بعد گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اور اخبار بجھ گیا جیسا کہ آپ جانتے ہیں کامیابی کے سو باپ اورناکامی کا کوئی پُرسان حال بھی نہیں ہوتا لیکن ہماری دوستیوں میں کوئی فرق نہیں آیا آج میاں اشرف ہم میں نہیں رہے وہ ہم دوستوں کے ایک ہجوم کو افسردہ کر گیا ہے اللہ اس کو غریق رحمت کرے اس کے درجات بلند کرے اور اس کے اہل خانہ جو وہاڑی ملتان میں آباد ہیں کو صبر جمیل عطاءفرمائے۔ آمین۔ ابھی تو مجھے اپنے دوست شیخ طیب صاحب پر لکھنا ہے۔
٭٭٭