اخلاق، رواداری ، حسن آداب اگر کسی کو سیکھنا ہے تو وہ نیب کے ارباب حل و عقد سے سیکھے ایسا معلوم ہوتا ہے اِس ایجنسی کے اوّل سے لے کر آخر تک سارے عملے نے تربیت طالبان کے کسی مدرسہ سے حاصل کی ہے، جنکا معمول ہے کہ وہ مہمان کو بُلاکر اُسے سنگباری کرکے ہلاک کردیتے ہیں، وہ تو اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ محترمہ مریم نواز کو یہ علم ہوگیا کہ اُن کی گاڑی کا شیشہ بھی جعلی ہے ، جسے بلٹ تو دور کی بات ایک پتھر بھی سوراخ کر سکتا ہے، معلوم ہوا ہے کہ پولیس کے ایک اعلی افسر کو مسلم لیگ (ن) کے قافلے پر کمانڈ اینڈ ایکشن کی ذمہ داری سونپی گئی تھی بلکہ اُسے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر پروموشن چاہیے تو نشانہ خطا نہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سرزمین پر ہر کچھ ممکن ہے، آج سے چند سال قبل ہی شہید بےنظیر بھٹو کو بھی پے در پے حملے کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا تھا، حملہ آور کون تھے آج تک کسی کو نہ اِسکا علم ہوسکااور نہ ہی وہ عدالت کے کٹہرے پر لائے گئے البتہ پولیس نے انتہائی چابکدستی سے وقوع واردات سے لہو کے داغ کو یکسر صاف کرکے تمام شواہدمٹادیئے تھے۔کمانڈ اینڈ ایکشن کا ذمہ دار پولیس افسر سپاہیوں کو یہ حکم دے رہا تھا کہ” یہ جو پتھر جارہا ہے یہ سب کا سب کارکنوں پر گر رہا ہے، ذرا نشانہ لگا کر رہنما¶ں کو نشانہ بنا¶یہ گاڑی جو کھڑی ہے، اِسی پر وہ آئی ہے ، واپس نہ جائے، ٹائرز فلیٹ کردو، ونڈ شیلڈ ڈھوں شو ہوجائے تاکہ مرمت کیلئے ہانگ کانگ بھیجنا پڑے، اچھا میں دیکھتا ہوں کہ کس کا نشانہ کتنا اچھا ہے، کون گاڑی کی ہیڈلائٹ کو چکنا چور کر سکتا ہے“ اِدھر یہ خون خرابہ جاری تھا اور دوسری جانب نیب کے افسران تماشا دیکھ کر قہقہے مارہے تھے۔
چند عرصہ سے پاکستان کی نامور ایجنسیاں ایف آئی اے اور نیب ہم وطنوں کیلئے موضوع بحث بنی ہوئیں ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ اُن کی کارکردگیاں پاکستان کیلئے سود مند ہیں یا زہر قاتل،امریکا سے ایک پاکستانی اسلام آباد گئے تاکہ وہاں وہ کنسٹرکشن کے بزنس کا آغاز کر سکیں، وطن کی خدمت کرنے کا جذبہ اُن میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ امریکا میں بھی اُنہوں نے محنت کے ذریعہ عزت اور دولت دونوں سے سرفراز ہوے تھے اور اب اُن میں وطن کی مٹی کا قرض اُتارنے کی خواہش بیدار ہوئی تھی، اُن کا ارادہ تھا کہ وہ اسلام آباد میں پرائیویٹ پارٹی سے زمین خرید کر اُس پر دیدہ پرور فلک بوس رہائشی عمارت تعمیر کرائیں اور جس کا سارا کام پاکستانی آرکیٹکٹ اور ہنر مند افراد سر انجام دیں لیکن شومئی قسمت اُن کے پہنچنے کے ایک ہفتے بعد ہی اسلام آباد کے اُن کے گھر میں ایف آئی اے کے اہلکاروں نے چھاپہ مارااور چھ گھنٹے تک اُن سے سوالات کی بوچھاڑیں کیں۔ اہلکاروں کا مقصد اُن پر یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان میں کنسٹرکشن کے بزنس کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر اُنہیں سرمایہ کاری کرنا ہی ہے تو وہ انرجی، گیس اور پٹرول کے شعبہ میں کریں۔ امریکا سے گئے ہوئے پاکستانی کو سخت دھچکا پہنچاکہ دو ٹکے کے لوگ اُسے یہ سمجھارہے ہیں کہ اُنہیں اپنی رقم سے کیا کرنا چاہیے بلکہ ایک اہلکار نے اُنہیں یہ بھی مشورہ دیا کہ چونکہ اُنہوںنے امریکا میں کافی عرصہ گذارا ہے ، اِسلئے اُنکے جسم کا روآں روآںگناہوں سے آلودہ ہے ، اُنہوں نے شراب ضرور پی ہوگی ۔ اِسلئے شراب کا عنصر اُن کے خون میں شامل ہوگا، اُنہوں نے زنا بھی ضرور کیا ہوگا، اِسلئے وہ درجنوں حرامی اولاد وں کے باپ بھی ہونگے، اُنہوں نے عریاں فلمیں بھی ضرور دیکھیں ہونگی، جس سے اُن کی آنکھوں کی بینائی پر شیطان کا سایہ منڈلارہا ہوگا، اِسلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دولت کو غریب غربا میں تقسیم کردیں جس سے اُن کی آخرت سنور جائے،امریکا سے گئے ہوے پاکستانی چھ گھنٹے تک جس ذہنی اذیت کا شکار ہوے اُس سے اُن کی دماغ کی رگیں پھٹنے لگیں لیکن اُن کی پریشانی کا ابھی خاتمہ نہ ہوا تھا دوسرے دِن ہی اُن کے گھر پر نیب کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا۔نیب کے اہلکاروں کا مطالبہ تھا کہ وہ اُنہیں اپنی ذرائع آمدنی کی نشاندہی کریں۔ نیب کے ایک اہلکار نے کہا کہ ” جیسا اُنہیں علم ہے کہ اُنکے والد لاہور کی سڑکوں پر پٹارا لگایا کرتے تھے۔ اُن کے بارے میں یہ رپورٹ بھی درج ہے کہ وہ لوگوں کی مویشی چوری کیا کرتے تھے بلکہ اُن کے خلاف یہ مقدمہ بھی درج تھا کہ اُنہوں نے لاہور میں جرمنی کے کونسل جنرل کے شیپرڈ کتے کو چوری کرکے کراچی کی مشہور فلمی اداکارہ کو فروخت کیا تھا۔ کونسلر جنرل کو اِس واقعہ پر اتنا زیادہ دکھ پہنچا تھا کہ وہ واپس جرمنی چلا گیا تھا۔نیب کے اہلکار نے مزید کہا کہ وہ خود بحیثیت گھریلو ملازم کے امریکا گئے تھے تو پھر دس سال کے مختصر عرصے میں اُن کے پاس دوسو ملین ڈالر کی ملکیت کہاں سے آگئی۔ ظاہر ہے اِن شواہد سے ڈرگ ڈیلنگ کا سراغ ملتا ہے۔ نیب کے دوسرے اہلکار نے امریکا سے گئے ہوئے پاکستانی کو کہا کہ نیب کو اُنہیں گرفتار کرنے کے تمام قانونی جواز موجود ہیں لیکن اگر وہ اپنی ذرائع آمدنی کے تمام کوائف کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیں تو پھر اُنہیں استعفیٰ مل سکتا ہے۔ اِسی دوران امریکی پاکستانی کی اہلیہ نے امریکی سفارت خانہ سے رجوع کیا اور اُنہیں تمام حالات سے آگاہی کی۔ امریکی سفارت خانہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی امریکن سٹیزن ہے، اور وہ امریکا نہ ہی پاکستان میں کسی جرائم میں ملوث ہے۔ اُس کی ذرائع آمدنی کا پتا لگانا یا نگرانی کرنا امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ طویل بحث و مباحثہ اور قانونی جنگ کے بعد امریکن پاکستانی پہلی فلائٹ سے امریکا واپس لوٹ آئے۔پاکستان کی خدمت کرنے کا جذبہ اُنکے لئے ایک ادھورا خواب بن کر رہ گیا۔