قارئین وطن! کی بات ہے میں کراچی میں نوکری کرتا تھا میرا ایک بڑا گہرا دوست میاں ایاز ہوا کرتا تھا ہم دونوں بڑے شرارتی اور لڑا کے ہوا کرتے تھے اس کا باپ گڈ ز ٹرانسپورٹ کا مالک تھا اس لحاظ سے وہ میرے مقابلے میں ایک مالدار کا بچہ تھا اس زمانے میں اسکے والد نے موٹر سائیکل لے کر دی میاں ایاز کو بڑا شوق ہوا کرتا تھا چی گویرا والی تصویر پہن کر حریت پسندی کا اس وقت مجھ کو اس انقلابی کی سمجھ نہ تھی ۔ وقت گزرتا گیا اور میں کراچی کی نوکری چھوڑ چھاڑ لاہور واپس آگیا اور تھوڑے عرصہ کے بعد ایک بہت ہی ہردلعزیز دوست چوہدری ظہیر الدین بابر اور میرے سر پر امریکہ کا جنون طاری ہو گیا خیر وہ میرے ساتھ تو آ نہ سکے میں اپریل کو امریکہ پہنچ گیا اور زندگی آپ اینڈ ڈان کے ساتھ گزارنی شروع کردی ۔
قارئین وطن! زندگی کے شب و روز گزر رہے تھے ایک دن دل نے محسوس کیا کہ سردار نصراللہ تو امریکہ ڈالر گننے تو صرف نہیں آیا کوئی فکری اور نظریاتی کام بھی ہونا چائیے پھر ایک دن کچھ لوگوں اور تنظیموں کو پاکستان کی نظریاتی احساس کے خلاف کام کر تے دیکھا میں نے پرانے دوستوں جن میں عالم خان ، چوہدری قاسم ، حاجی جمیل اور طارق شاہ صاحبان کو جمع کرکے اس ملک میں بکھرے ہوئے پاکستانیوں کو نظریہ پاکستان کی احساس کے نیچے جمع کرنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اس کی ایک وجہ کہ میری رگوں میں اور سانسوں میں مسلم لیگ دوڑھ رہی تھی۔ سیاست میں مگن۔ نہ کاروبار پورا ہو سکا نہ ہی مکمل سیاست دان بن سکا کہ میری غریبی نے میرے فن کو ابھرنے نہ دیا بس اتنا ہوا کے مطالعہ شوق نے گھر کر لیا سنہ میں میں بارنز اینڈ نوبلز کتابوں کی مشہور دوکان پر ایک آدھی کتاب خریدنے کی غرض سے گیا ،شیلف پہ سامنے چی گویرا کی سوانحہ عمری پر نظر پڑی ،میرے دل میں میاں ایاز کی حرمتی عادتوں نے انگڑائی لی اور میں نے فورا خرید لی گھر آیا اور پڑھنی شروع کردی تقریبا سو دو سو صفحات پڑھے ہوں گے کہ کتاب اتنی ضخیم تھی کہ اس کو پھر پڑنے پر چھوڑ دیا ۔
قارئین وطن!پاکستان کی سیاسی ، اقتصادی اور معاشی صورت حال کی تباہی دیکھ کر خاص طور پر عدلیہ کی حرکتوں کو دیکھ کر کہ کس طرح شریفوں، زرداریوں ، ملاں اور ان کے کارپردازوں کی قومی دولت اور اثاثوں کی لوٹ پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں میں نے دوبارہ دنیا کے عزیم حریت پسند چی گویرا کو پڑھنا شروع کیا سالوں بعد اس کتاب کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا اور اس کے ایک ایک آدرش اور نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کی کہ کس طرح اس نے استعماری قووت کو شکست دی ارجنٹینا کا نوجوان ساتھ امریکہ کی آزادی کے لئے کیوبا کے فیڈلر کاسترو کے شانہ بشانہ لڑا ۔ کاش پاکستان میں بھی کوئی چی گویرا پیدا ہوتا جو نواز شریف شہباز شریف، آصف زرداری اور ان کے حواریوں کے ساتھ ساتھ تمام کرپٹ جج صاحبان اور دفتری نظام پر قابض مافیا سے نبرد آزما ہوتا اور ان ناسوروں کو کرش کر دیتا اور اب یہ عالم ہے کہ چی گویرا کی حرمت کے کارنامے پڑھتا جاتا ہوں کے ہائے سردار نصراللہ تو نے ایک عزیم آدمی کو پڑھنے میں سال کیوں لگائے میں اس کے قافلے کا سپاہی کیوں نہیں بنا اب آنسو بہاتا جاتا ہوں اور مرشد سانی فیض احمد فیض کی نظم میں ان کھوئے ہوئے لمحوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں!
دار کی رسیوں کے گلو بند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اک روز گاتے رہے
پائیلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اِ س صف میں تھے اور نہ اس صف میں تھے
راستے میں کھڑیان کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آکے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رسن در گلو ، پابجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا
اسی قافلے میں کاش لے چلا
اے اللہ پاک پاکستان کو بھی ایک چی گویرا عطا کر جو ہماری حرمت کا پاسبان بن کر ریاست پاکستان کے دشمنوں کو خاکستر کر دے آمین!
٭٭٭