یہ سانپ ہم نے ہی پالے ہیں…آستینوں میں!!!

0
108
جاوید رانا

قارئین کرام! ہمارے گزشتہ کالم ”میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں” پر آپ کی پسندیدگی کا اظہار اس حقیقت کا مظہر ہے کہ وطن عزیز جن آلام وابتلاء کے حالات سے گزر رہا ہے ہر بیرون ملک پاکستانی اس بارے نہ صرف فکر مند ہے بلکہ اس تشویش میں بھی مبتلا ہے کہ وطن کے مقتدرین اور ستونوں کے درمیان نزاعی و منافرانہ کیفیت کسی ایسی سازش کا حصہ تو نہیں جو حالیہ عالمی ایجنڈے کی صورت میں عالمی قوتوں کے درمیان جاری ہے اور اس حوالے سے پاکستان کو اس حد تک لائے جانے کی کوشش ہے کہ پاکستان کی معاشی، عسکری و عوامی استعداد کو انتہائی کمزور کر کے اسے ان ممالک کی سطح تک لایا جا سکے جہاں اس کیلئے مقتدر عالمی طاقتور کے سامنے جی حضوری کے سواء کوئی اختیار نہ ہو۔ پاکستان کی معاشی مجبوریوں کے سبب آئی ایم ایف کا گزشتہ دو برسوں سے کردار سب کے سامنے ہے کہ اپنی شرطیں منوانے کیلئے اس ادارے نے پاکستان کو گھٹنوں پر لا کھڑا کیا ہے، عوام پر سبسیڈیز کے خاتمے اور ڈیوٹیز میں اضافے سے کمر توڑ مہنگائی، ڈالر کی قدر کا اُتار چڑھائو، برآمدات و درآمدات میں بے پناہ کمی و خسارہ آئی ایم ایف کے پاکستان مخالف کردار کا آئینہ ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف اپنے سارے اقدامات و فیصلے امریکہ بہادر کی مرضی و اسٹریٹجی کے مطابق ہی کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کی تکمیل اور دوست ممالک کی گارنٹی کے باوجود پاکستان ابھی بھی فنڈنگ سے محروم ہے اور مستقبل قریب میں بھی کوئی آثار نہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی قوم یا ملک کو کمزور اور زیریں نگیں بنانے کیلئے پہلا وار معاشی ہوتا ہے کہ تمام تر صلاحیتوں اور وسائل و مضبوطی کا دارومدار بہتر معیشت پر ہوتا ہے۔ عالمی برتری کی اس جنگ میں حالیہ کشمکش امریکہ و چین کے درمیان ہے اور ہم سطور بالا میں آئی ایم ایف کے کردار کی نشاندہی کر چکے ہی۔ پاکستان اپنی ترقی پذیری کے سفر میں چین سے معاشی تعلقات سے جُڑا ہوا ہے اور ون بیلٹ ون روڈ و صنعتی تعلقات کاریڈور پر پیش رفت امریکہ کے حق میں ہر گز نہیں، اس پر مستزاد پاکستان کا ازلی دشمن بھارت امریکہ کا خطہ میں نور نظر ہے، اس صورتحال میں پاکستان کو نہ صرف معاشی طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے بلکہ پاکستان کو دفاعی طور پر کمزور کرنے کی سوچی سمجھی سازش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کسی بھی ملک کے اہم ستون یعنی پارلیمان، اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور انتظامیہ ایک ٹریک پر نہ ہوں اور انہیں قوم کا اعتماد حاصل نہ ہو تو ایسے ملک کو دو لخت کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ پاکستان دنیا کی پانچویں بہترین فوج اور ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ دشمن قوتوں کو بخوبی علم ہے کہ عسکری طور پر اسے زیرنگیں نہیں لایا جا سکتا تو اس نے اداروں میں اختلاف، معاشی ناہمواری اور عوام و مقتدرین کے درمیان اختلاف و عناد کی اسٹریٹجی اپنائی۔ گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اداروں کے درمیان اختلاف و تقسیم، جمہوریت و جمہور کی پامالی، غصہ اور انتشار کی بدولت جو کچھ ہوا، اس سے قارئین بخوبی آگاہ و واقف ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ 9 مئی کا سانحہ پیش آیا جو یقیناً ملک و قوم اور وطن کی سرفرازی کیلئے کسی بھی طور سے مستحسن نہیں ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ نوبت سانحۂ 9 مئی تک کیوں پہنچی اور اس کی ذمہ داری کس پر آتی ہے کہ اس سانحہ میں سول اور عمومی نقصانات کے ساتھ قومی و عسکری یادگاروں اور تنصیبات کو بھی نہ بخشا گیا۔ سوچنا تو یہ بھی ہے کہ کیا کوئی پاکستانی باباے قوم یا شہدائے پاکستان کی بیحرمتی کرنے کا متحمل ہو سکتا تھا،، ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اس احتجاج کو کسی متعینہ منصوبے کے تحت متذکرہ بالا پاکستان دشمن واقعات کے ذریعے دہشتگردی کی صورت دے کر پی ٹی آئی کو عوام کے دلوں اور سیاسی منظر نامے سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ا گر ایسا نہیں ہے تو بقول سابقہ گورنر لطیف کھوسہ، کور کمانڈر ہائوس پر چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی، پھر مجمع وہاں کیسے پہنچ گیا اور وہ سیکیورٹی انتظامات کہاں تھے جو کئی لیئرز میں وہاں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی سوالات جی ایچ کیو، میانوالی کے ہوائی مستقر اور دیگر عسکری قومی تنصیبات و مقامات کے حوالے سے اُٹھتے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری پر پارٹی اور عوام کا احتجاج ایک فطری عمل تھا کہ اس وقت وہ لوگوں کی محبوبیت اور امیدوں کا واحد مرکز ہے اور جس طرح اس کی گرفتاری کی گئی تھی وہ کسی بھی انسانی، اخلاقی، قانونی طریقے سے جائز نہیں تھی۔ گرفتاری کو جائز بنانے کیلئے عوام کی مسترد کردہ حکومت نے ہر طرح کے ہتھکنڈے اور طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ آڈیو و ویڈیو لیکس، سینکڑوں مقدمات، غیر آئینی و جمہوری ایکٹ و قوانین بنا کر اس امر کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح عمران سے چھٹکارا پایا جائے مگر اپنی تمام تر ہرزہ سرائیوں کے باوجود نہ وہ عمران کے عزم کو متزلزل کر سکے ہیں اور نہ عوام کے دلوں سے اس کی محبت ختم کر سکے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان نا اہل حکمرانوں کے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ بھی سہولتکاری کر کے عوام سے دور نظر آرہی ہے اور عوام و فوج کے درمیان واضح خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا یہ صورتحال پاکستان کی سلامتی کیلئے مناسب ہے؟
9 مئی کے اس سانحہ کے تناظر میں نہ صرف پی ٹی آئی کے سرفہرست لیڈران کی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں بلکہ کارکنان، ہمدردوں اور عام شہریوں پر ظلم و جبر کئے جا رہے ہیں۔ خواتین کو برہنہ کر کے سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے، نو عمر بچوں اور جوانوں حتیٰ کہ بزرگوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ ظلم کے یہ ہتھکنڈے عمران کی محبت لوگوں کے دلوں سے تو نہیں مٹا سکیں گے البتہ ظلم کرنے والوں سے نفرت کا لاوا مزید بھڑکنے کا سبب بن رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بار بار گرفتار کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کا انہیں رہا کرنے کا حکم، ماضی کی طرح ناپسندیدہ سیاسی اشرافیہ کے لوگوں کی اپنی جماعت سے لاتعلقی کے اعلان اور مذمتی بیان بازی کا سلسلہ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ حکومت و فوج عمران مخالف ایجنڈے پر یکجا ہیں تو عدلیہ عمران و آئین کے حوالے سے با عزم و متحرک ہے، گویا تقسیم واضح ہو گئی ہے۔ آرمی ایکٹ، لازمی سروس ایکٹ و انسداد دہشتگردی عدالتوں میں مقدمات چلانے کیساتھ اب حکومت نے آڈیو لیکس کے حوالے سے چیف جسٹس سے مشورے وہدایت لئے بغیر جو عدالتی کمیشن بنایا ہے وہ نہ صرف کمیشن ایکٹ 2017ء کی روح کے برعکس ہے بلکہ عدالت عظمیٰ و حکومت اور فوج کے درمیان مزید دراڑیں ڈالنے کا سبب ہونے کے ساتھ عوام میں مزید بدگمانی کا باعث ہو سکتا ہے۔
اس سارے ہنگام کا نتیجہ ملک میں عدم استحکام اور تباہی ہی ہو سکتا ہے اور ان شبہات کو تقویت دیتا ہے کہ ر جیم چینج اور بعد کے واقعات کسی عالمی سازش کا ہی حصہ ہے۔ ہمیں ایک سچا پاکستانی ہونے کے ناطے پورا یقین ہے کہ ہمارے عساکر کسی ایسی سازش کا حصہ نہیں ہو سکتے جو پاکستان کے وجود کو چار ریاستوں میں تقسیم ہونے اور ہماری نیوکلیائی صحت کے خاتمے پر ہو البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں عوام سے ان کے رشتے میں دوری بدترین حالات کو جنم دے۔ ہماری دست بستہ درخواست ہے کہ حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ملک و قوم کی سلامتی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے وہ راستہ اختیار کیا جائے جو امن و سلامتی کا نتیجہ بنے اور وہ راستہ انتخاب اور عوام کی حمایت یافتہ قیادت کی حکمرانی کا ہے۔ موجودہ حالات صرف بتاہی کے راستے کی نشاندہی کر رہے ہیں جو نا اہل حکومت کے شکست کے خوف کے باعث ہیں۔ ہمارے مقتدر و محافظ ادارے اور سربراہ کو حالات سمجھ کر پاکستان کی سالمیت، خوشحالی اور تحفظ کیلئے اقدام کرنا لازم ہے جس کامشورہ ان کے پیشرو سربراہان نے بھی دیا۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ مخاصمت اور ضد کا یہ سمندر وطن عزیز کیلئے نقصان کا باعث بنے، اللہ نہ کرے اگر پاکستان چار ریاستوں میں (عرب امارات و دیگر کی طرح) منقسم ہوتاہے تو کہاں کی فوج اور کس کا آرمی چیف، یہ وقت اتحاد اور تنظیم کا ہے کہ قائد کا فرمان بھی یہی ہے۔ فیض احمد فیض کی زبان میں یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کیلئے، کھڑے رہوگے کہاں تک تماش بینوں میں، کیونکہ یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں کہ اقتدار رہے ان کے جاں نشینوں میں ایسا کرنا ہی ضروری ہے ورنہ عوام کے سمندر کے آگے بند باندھنا ناممکن ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here