سول بالادستی پاکستان میں ایک خواب ہے اور یہ ہمیشہ خواب ہی رہے گا، ہم ایک نظر ان ممالک پر ڈالتے ہیں جن میں سول بالا دستی عملی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے، ہم زیادہ دور نہ بھی جائیں تو پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھارت میں سول بالا دستی مکمل طور پر فعال ملے گی۔ چین امریکہ یورپی ممالک کہ سول حکومتیں اپنے ملک کے معاملات چلانے میں مکمل طور پر آزاد نظر آئیں گی۔ کیا وجہ ہے کہ کسی بھی ملک میں فوج آپ کو کبھی بھی ملکی معاملات میں دخل اندازی کرتی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔ وہ صرف ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے کام کو انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے اور اس سلسلے میں اپنے سفارشات سول حکومت کو بھجواتی رہتی ہے اس سے ہٹ کر کبھی بھی فوج نے سول حکومت کی جانب سے بنائے جانے والی پالیسیوں میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں کی ہاں مگر ملکی دفاع سے متعلق پالیسیوں میں اپنی رائے کا اظہار ہمیشہ کیا جاتا ہے، مگر اس پر بھی حتمی فیصلہ سول حکومت کا ہی تسلیم کیا جاتا ہے یوں ان ممالک میں سول بالادستی نہ صرف نظر آتی ہے بلکہ ان کے فوائد بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں دیکھا جائے تو یہاں پر خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں فوج مکمل طور پر ایک سٹیک ہولڈر کی طرح اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے اور بعض اوقات تو فوج اپنی پالیسی سول حکومت سے ڈنڈے کے زور پر بھی لاگو کرواتی ہے۔ شاید آپ سوچتے ہوں کہ اس میں حرج کیا ہے فوج بھی تو ملک کی خیر خواہ ہے، دراصل اس میں حرج یہی ہوتا ہے کہ سول حکومتیں وہ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کئی دہائیوں تک چلانے کے سپنے آنکھوں میں سجا رکھے ہوتے ہیں اور اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے فیصلے بھی دو اندیشی کہ قلم سے تحریر کردہ ہوتے ہیں جن کا عمومی طور پر ملک کو فائدہ ہی ہوتا ہے اور ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد اگر انہیں ایوان اقتدار میں رہنا ہے تو کارکردگی لے کر عوام کے پاس جانا ہوگا، جبکہ اس کے برعکس فوجی ڈکٹیٹر ڈنڈے کے زور پر ملک پر قابض ہو جاتے ہیں اور ان کو اس بات کی ذرا فکر نہیں ہوتی کہ کارکردگی کی اس بلا کا نام ہے۔۔ جب تک ملک اس قابل ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ نظام چلانے کے لیے خزانے میں رقم موجود ہے وہ ڈنڈے کے زور پر قابض رہتے ہیں اور جیسے ہی ملکی معاشی حالت ان کے قابو سے باہر ہونے لگتی ہے تو وہ انتخابات کروا کر دوبارہ سے سیاسی حکومتوں کو اقتدار سونپ دیتے ہیں مگر اس عمل کے بعد سول حکومتوں کو پھر بھی مکمل ازادی نہیں ملتی اور کہیں نہ کہیں فوج اپنی من مرضی کرتی رہتی ہے جس کے سبب کوئی بھی سول حکومت ایسی پالیسی ترتیب نہیں دے پاتی جس کا دورانیہ طویل اور نتائج مستحکم ہوں۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کبھی بھی سول دور حکومت زیادہ دیر نہیں چلا اس میں کسی نہ کسی صورت میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کی جھلک اپ کو نظر آئے گی، درحقیقت پاکستان کے نظام فوج اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ اب اس کو اس عمل سے باہر کرنا تقریبا ناممکن سا ہو چکا ہے، اس لیے پاکستان میں سول بالا دستی ہمیشہ سے ایک خواب ہے اور یہ خواب ہی رہے گا۔
٭٭٭