لمحہ فکریہ!!!

0
42
جاوید رانا

اسرائیل کا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی بیٹی سمیت بنکر بسٹرز میزائلوں کے ذریعے متعدد رہنمائوں کو شہید کرنے کا بدترین اقدام اس وقت عالمی سطح پر تشویش کا مظہر ہی نہیں، ہمارے گزشتہ شمارے کی مرکزی خبرکی تصدیق بھی ہے کہ گریٹر اسرائیل منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائیگا، گزشتہ گیارہ ماہ کے اسرائیلی اقدامات، شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ، اسماعیل ہنیہ کی شہادت، حماس کی تباہ کاری اور اب تک 60 ہزار سے زائد شہادتوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں سمیت مکمل تباہی کیساتھ اب لبنان پر حملوں اور حسن نصر اللہ کی شہادت کیساتھ نیتن یاہو کا دعویٰ اور اسرائیلی چیف کا اعلان کہ یہ ہمارا آخری حملہ نہیں، ہمارے پاس اور بھی آپشن ہیں اور ہمارے اور بھی ٹارگٹ ہیں۔ اقوام متحدہ میں نتین یاہو کا اعلان کہ ہمارے پاس ایسے ہتھیار بھی ہیں کہ ہم ایران کے ہر کونے تک پہنچ سکتے ہیں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اسرائیل کے مشرق وسطی پر قبضہ کرنے کیلئے رکاوٹ ایران ہی ہے۔ دوسری طرف ایران کا اب تک کا کردار شدید رد عمل کے برعکس محض احتجاج تک ہی محدود رہا ہے، حالیہ لبنان پر اسرائیلی حملے پر بھی آیت اللہ کی جانب سے بیان آیا کہ تمام گروپ متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کریں۔ اس بیان کی منطقی وجہ یہ ہے کہ خطے کے ممالک آپ سمیں ہی بوجوہ متحد نہیں ہیں۔ ایران و سعودی عرب کے فقہی اختلافات، شام، عراق و دیگر علاقائی ممالک و اسلامی ممالک کے سیاسی مفادات کسی بھی یکجائی میں شامل ہونے کے سبب نظر نہیں آتے البتہ حماس، حزب اللہ جیسے گروپ اسرائیلی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نظر آتے ہیں۔ خود ایران بھی پابندیوں اور امریکہ ومغربی ممالک کے اسرائیلی مفادات میں متحرک ہونے کے سبب کسی انتہائی اقدام یا جوابی رد عمل کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس منظر نامے اور امریکہ کی بھرپر حمایت و مدد کے سبب واضح نظر آتا ہے کہ اسرائیل اپنی توسیع پسندی کے منصوبے میں کامیابی دیکھ رہا ہے عالمی عدالت انصاف کو خاطر میں لایا نہیں گیا اقوام متحدہ کی قراردادیں امریکہ ویٹو کر رہا ہے،ا مریکی حکومت اوریہودی لابی ہر طرح کی سپورٹ کر رہی ہے، پوپ پال کی اپیل اور حقوق انسانی کے مطالبات پر تنسیخ پھیر دی گئی ہے اور اسرائیل ظلم و بربریت پر ڈٹا ہوا ہے لیکن مسلم اُمہ سب کچھ دیکھتے جانتے ہوئے بھی کچھ کرنے سے محروم ہے۔ او آئی سی صرف Oh I See تک محدود ہے، اس کے بس میں سوائے قراردادوں کے اور کچھ نہیں کیونکہ انہیں امریکہ و یورپ سے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ یہ صورتحال لمحۂ فکریہ نہیں تو کیا ہے کہ 52 اسلامی ریاستوں کے ہوتے ہوئے بھی یہود و نصاریٰ کے منصوبوں کی سازشوں کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ نیتن یاہو کا اقوام متحدہ میں دعویٰ کہ ہم نے غزہ اور حماس کو تباہ کر دیاہے اب حزب اللہ، لبنان، یمن حتیٰ کہ ایران کو بھی ختم کر دیا جائیگا۔ بہرحال ان کٹھن حالات کے باوجود ایران و عراق کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا جانا اتل ابیب اور بیت المقدس400سو میزائلوں کی برسات کرنا اہم اقدام اور بدلہ لینے کا عزم نظر آتا ہے لیکن کیا اسرائیل کے مضبوط دفاعی نظام ڈوم اور امریکی صدر جوبائیڈن کے اسرائیلی کی حمایت میں بیان کے بعد کیا صورتحال مزید خراب ہونے اور اسرائیل کے ایران پر حملے کا جواز نہیں بن جائیگی، کیا مسلم ممالک ایسے میں ایران کے ساتھ ہونگے؟۔
پاکستان دنیا کا واحد نیوکلیائی اسلامی ملک ہے، اس کے باوجود پاکستانی مملکت کی جانب سے اسرائیل کے ظلم و بربریت کیخلاف سوائے روایتی احتجاج و مذمت کچھ سامنے نہیں آیا ہے۔ ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران و عدم استحکام اور اداروں کے درمیان تفریق و تقسیم کا کھیل موجودہ عالمی طاقت امریکہ بہادر کی مرضی و منشاء کے مطابق ہی کھیلا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی انتشار میں ہی اُلجھا رہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان تنازعہ اور مخالفت ان حدوں کو چھو رہی ہے جہاں مفاہمت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا بلکہ اب تو صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ اداروں کی اندرونی مخالفت برسر عام آگئی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اعلیٰ ترین ججز کی لڑائی اور مراسلات بازی محض اندر خانہ ہی نہیں بر زبان عام اور فیصلوں کی صورت تلخیوں، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے، تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے اپنے مشیروں سے سوال کیا تھا، کیا ہماری عدالتیں انصاف کر ہی ہیں؟ جواب اثبات میں پا کر چرچل کا قول تھا ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ہماری عدالتیں اس نہج پر پہنچ چکی ہیں جس کیلئے شاعر نے کہا تھا، بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہئیں۔ وطن عزیز میں ریاستی جبر و استبداد، سیاسی تنازعتی کیفیت، آئین و قانون اور جمہوریت و انسانی حقوق کی دھجیاں اس حد تک بکھیر دی گئی ہیں کہ 81 سال کی ضعیفہ کو دہشتگردی کے جرم میں گرفتار کر کے اس کا ریمانڈ دیا جاتا ہے، حسن نصر اللہ کی شہادت اور اسرائیلی ظلم کے احتجاج پر سینیٹر مشتاق احمد کو زدو کوب کیا جاتا ہے عمران اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور ہمدردوں کیساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو دشمن ایجنٹوں اور آلۂ کاروں کیساتھ کیا جاتا ہے۔ حالات جس طرف جا رہے ہیں یہ لمحہ فکریہ ہی ہے کسی آزاد معاشرے اور ملک کی تصویر ہر گز نہیں۔ حالات کی بہتری کی کوئی امید تو نظر نہیں آرہی ہے البتہ مزید بربادی اور شکست و ریخت کے آثار بہت واضح ہیں۔ ہم اپنے گزشتہ کالم میں اکتوبر کے مہینے میں نظام اور چہروں کی تبدیلی کی پیشگوئی کر چکے ہیں، خدا کرے ایسا نہ ہو سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here