اللہ رب العزت وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،زندہ ہے سب کو تھامنے والا۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیندجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کا ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے جو کچھ اس کے روبرو ہو رہاہے اور جو اس کے پیچھے ہو چکا ہے۔ اسے سب معلوم ہے اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے اور ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے،وہ معلوم کرا دیتاہے۔ اس کی بادشاہی اور علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔اس سے انکی حفاظت کوئی بھی دشوار نہیں، وہ بڑا عالی رتبہ ہے جلیل القدر ہے۔اس معبود برحق سے محبت کا تقاضا ہے کہ ووٹ کی ایمانت انکے کے سپرد کی جائے جو اس کے حقدار ہیں۔شخصیت پرستی جو خلاف سنت ہے اس سے اجتناب کیا جائے ۔ہم ہر تقریر اور تحریر میں ایاک نعبد پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ کپتان کی رہائی کے لئے مدد امریکہ سے مانگ رہے ہیں۔ ہماری ملکی سیاست اس ٹوٹی بندوق کیطرح ہے ۔ جسے چلانے والوں اور جن پر چلانے جائے کوئی پتہ نہیں ۔کس وجہ سے چلی ہے اور اسکے محرکات کی ھیں۔ ملکی اداروں پر فوجی مافیا قابض ہے ۔جنہوں نے سینٹ ،پارلیمنٹ۔ صوبائی اسمبلیوں اور بیوروکریسی اور عدلیہ پر قبضہ کررکھا ہے۔ مہنگی زمینوں پر قبضے ، قومی وسائل کی بندربانٹ ۔ غرض کے ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ جس نے قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔انکے ڈاکے اور لوٹ مار کیوجہ سے سیاستدانوں نے بھی بہتی گنگا میں نہانا اپنا فرض سمجھ رکھا ہے۔قومی مجرموں کا گروہ ملک پر مسلط ہے۔جو خود ہی ملازمت کی مدت بڑھاتے ہیں۔خود ہی تنخواہیں بڑھاتے ہیں۔ جرنیلوں ،ججز اور بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں اضافہ اور بیش بہا مراعات ،مقروض ملک پر ڈاکہ ہے ۔سیاسی رشوت ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی جرنیل اور جج عام پبلک میں گھوم نہیں سکتے ۔انکے ظلم ،لوٹ مار اور بے انصافی نے عوامی غیض و غضب اور نفرت میں اضافہ کیا ہے۔جہاں موقع ملے عوام انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے گملے کے پھول ہیں۔ اسٹبلشمنٹ جب چاہتی ہے انہیں مسل دیتی ہے۔ جب چاہے آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ ملک میں ہونی والی سب برائیوں کی جڑ اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی ہے۔جو ایم کیو ایم، فضل الرحمن، نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری کو استعمال کرتی ہے۔ جب چاہے ان سے بوٹوں کے تسمے بندواتی ہے۔ نواز شریف اسٹبلشمنٹ کے گملے کا پوداتہے۔بینظیر بھٹو اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے ملک میں آئیں اور الیکشن جیتیں۔عمران نے بھی اقتدار کے لئے اسٹبلشمنٹ کا کندھا استعمال کیا۔ یہ تینوں لیڈرز اقتدار میں آنے کے بعد اسی اسٹبلشمنٹ کی نفرت کا نشانہ بنے۔یہ ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں۔ مگر جن سے ووٹ لیتے ہیں انکی توہین کرتے ہیں۔ااسٹبلشمنٹ خلف اٹھا کر جھوٹ بولتی ہے کہ انکا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ۔لیکن ہر دور کی اکھاڑ پچھاڑ ۔ ہر چند سال بعد الیکشن کے جھرلو میں براہ راست دخل اندازی کرتے رہے ہیں۔ اور اقتدار کی بساط لپیٹنے میں ملوث رہی ہے۔ ملک میں کوئی ادارہ آزاد نہیں ۔ پریس، الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا انہی کے حکم کے تابع ہے۔ کسی کو انکے خلاف لکھنے کی جرآت نہیں ۔صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اب اس میں بھی چابی والے دانشور اور صحافی آگئے ہیں۔ جو صحافت کم اور سیاست زیادہ کرتے ہیں ۔ سیکٹر کمانڈر کی ایک کال پر نظریہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ان سیاسی گماشتوں سے ملکر اپنے ادارے کی اپنی عزت خاک آلود کیا ہے اور سیاسی کلچر کو بھی آلودہ کیا ہے۔ انہیں عوام کے ساتھ مڈبھیڑ نہیں کرنی چاہئے۔ اور نہ ہی عوام میں اپنی لئے نفرت پیدا کرنا چاہئے۔کسی بھی ملک کی اسٹبلشمنٹ عوام سے نہیں لڑا کرتے۔اور نہ ہی عوام سے لڑا جاسکتا ہے۔دنیا تبدیل ہوچکی ہے۔بدلتی دنیا، بدلتے حالت،ملکی صورتحال کے پیش نظر ،پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو ملکی سیاست سے باز رہنا چاہئے۔ستر سال میں پاکستان نے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ کھویا ہے۔ طرز سیاست اور طرز حکومت فرسودہ طریقہ سے چلائی جارہی ہے۔ جو لوگ ضیاالحق کی آمریت کے دور میں پیپلزپارٹی میں تھے ۔ انہیں پارٹی چھڑوا کر سرکاری مسلم لیگ میں شامل کروایا گیا۔ پھر وہی لوگ جونیجو سے علیحدہ ھوکر ن لیگ بنے۔ ن لیگ میں جو لوگ کل پٹواری تھے انہیں زبردستی یوتھیا بنایا گیا۔ آج یوتھئیے دوبارہ سرکاری پارٹی اور میں ہیں ۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کے حمایتیوں پر پاگل پن کے دورے پڑ چکے ہیں ۔ جیسے ن لیگ کے پٹواری اور پیپلز پارٹی کے جیالے ٹرمپ کی جیت پر یوتھئیے لڈیاں ڈالکر ڈالکر پاگل ھوچکے ہیں۔ نچ نچ کے گھنگرو توڑے جارہے ہیں ۔ پارٹی پالیٹکس شخصیت پرستی میں غوطہ زن ہے۔ شخصیت پرستی میں پی ٹی آئی کے ٹائیگرز پاگل ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کی خوشی میں پی ٹی آئی نے امریکہ سے کپتان کی رہائی کی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔یوتھئیے سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ انکا مسیحا ہے ۔ اگر امریکہ اسرائیل کی خاطر تمام دنیا کے مسلمانوں اور عربوں کو قربان بھی کرنا پڑے وہ کوئی پروا نہیں کرے گا۔ کبھی ھم انتخابی جلسوں میں مشرف کی تصویر والے بینرز لگاتے ہیں۔2018 میں باجوہ کی تصویروں والے بینرز اور اب ڈانلڈ ٹرمپ کی تصویر والے بینرز لگاکر یہ ثبوت دیتے ہیں کہ ھم ذہنی طور پر غلام قوم ہیں ۔ایک طرف امریکی سائفر لہرا لہرا کر ابسولیوٹلی ناٹ کے چرچے کرتے تھے ۔ اب ٹرمپ کی تصویر کے بغیر اسٹیج نامکمل ہے۔ ھم ان پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔بہرحال یہ ان جماعتوں کا اور انکے کارکنان کا حال ہے۔ ان پارٹیوں کا عوامی فلاح کانا کوئی ایجنڈا ہے اور نا کوئی manifesto ۔ قارئین ! آج ملک جس دلدل اور مشکالات میں پھنسا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ سیاسی تفریق اور سیاسی نفرت ہے۔ جس کی وجہ سے جرنیل ملکی اداروں پر مسلط ہیں ۔ جن کا کام صرف مال بنانا۔ اس فسطائیت نے ملک کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز دس نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔ جس میں اسٹبلشمنٹ کو جڑ سے اکھاڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ٹرمپ کے قربی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس جنس ایجنسیوں کو کڑے احتساب سے گزرنا پڑے گا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ نئی جنگیں شروع نہیں کرئے گا۔امریکی اسٹبلشمنٹ نے نیا محاذ کھولنے کے لئے ٹرمپ کو ابھی سے ایران کے خلاف اکسانا شروع کردیا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس نے ٹرمپ کو قتل کرنے کا الزام ایران پر لگایا۔سات ستمبر کو قتل کرنے کے الزام میں ایرانی وزیر شکیری ایران کا کہنا ہے کہ ہمیں ٹرمپ کے قتل میں کوئی غرض نہیں۔یہ اسے مار کر الزام پر ہم پر لگانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے دوا ساز کمپنیوں کے خلاف ۔ ھم جنس پرستوں کے خلاف بھی اعلان جنگ ہم جنس پرستی کی خلاف ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صرف دو جنس ہیں ، مرد اور عورت، تیسری کوئی جنس نہیں ۔ ٹرمپ لبنان ،غزہ،اور یوکرائن کی جنگ کو بند کرنے جارہاہے۔ ٹرمپ کو اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے کیونکہ چائینہ نے کہا ہے کہ ہمیں امریکہ سے جسم میں کوئی حرج نہیں، اسی فیصد یہودیوں نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا ہے،یہودی جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،اس میں ٹرمپ کی جان بھی لے سکتے ہیں۔
٭٭٭