”ٹرمپ ، عمران کی رہائی کیلئے تیار”

0
8

”ٹرمپ ، عمران
کی رہائی کیلئے تیار”

پاکستان تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک کو تیز کر دیا ہے ، اس مرتبہ عمران خان کی بہنیںاور اہلیہ بشریٰ بی بی بھی میدان میں کود پڑی ہیں اور کارکنان کو ڈی چوک پر جمع ہونے کے لیے 24نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے ، دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت اور خاص طور پر امریکہ میں موجود پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری نے عمران خان کی رہائی میں ٹرمپ کے کردار کو خاصی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ امریکہ میں نئی قیادت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی حکومت پر عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈالا جائے گا، اسٹیبلشمنٹ کی ان معاملات پر خاموشی بھی اس طرف اشارہ ہے کہ شاید 24جنوری کو احتجاج سے قبل ہی معاملات حل ہو جائیں ، حکومت عمران خان کی رہائی کو عملی جامعہ پہنائے لیکن فی الوقت یہ سب قیاس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم وائٹ ہاؤس کا دورہ سنہ 2019 میں کیا تھا اور اْس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے۔ کیمروں کے سامنے دونوں رہنماؤں کی ملاقات انتہائی خوشگوار رہی تھی۔اس ملاقات کے دوران اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سامنے عمران خان کو ‘میرے اچھے دوست’ کہہ کر بھی مخاطب کیا تھا۔2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جو بائیڈن امریکی صدر بن گئے۔ ان کے صدر بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر سردمہری نظر آئی اور عمران خان اور بائیڈن کے درمیان کوئی ٹیلیفونک رابطہ تک نہیں ہوا تھا۔پھر سنہ 2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیرِ اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گِرانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھالیکن بعد میں ان کے بیانات میں تبدیلی اس وقت نظر آئی جب انھوں نے اس وقت کے فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کو حکومت گِرانے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔سابق وزیرِاعظم گذشتہ برس اگست سے متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور تاحال راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔پی ٹی آئی کے کچھ رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخاب کے نتیجے میں اْن کی جماعت کے سربراہ کی مشکلات شاید کچھ کم ہو جائیں گی۔عمران خان کی جماعت کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ‘اچھے دوست’ عمران خان کو رہائی دلوا دیں گے۔ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ عمران خان کو درپیش قانونی مشکلات کا ذکر امریکہ میں ہوا ہو بلکہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ امریکی سینیٹرز اور کانگریس ان کی جیل سے رہائی کے لیے آواز اْٹھا چکے ہیں۔حال ہی میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈیموکریٹک پارٹی 60 سے زائد اراکین نے موجودہ صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ‘امریکہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کو رہائی دلوائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رْکوائے۔دوسری جانب ملکی معیشت میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے ، حکومتی وفد ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے بلکہ اب تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے بھی آئی ایم ایف سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے ، پاکستان میں شرح سود میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 150 روپے کا اضافہ ہوا اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10.5 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 4.2 ارب ڈالرز رہ گئے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اس تمام صورتحال کا ذمہ دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو قرار دیتی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے دعوے کیے تھے اور قیام کے چند دن بعد تک ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی بھی دیکھی گئی تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور ا?ج ڈالر کی قیمت 285 روپے کی سطح تک پہنچ چکی ہے تاہم ماہرین کی جانب سے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی قرار دیا گیا کیونکہ اس وقت بلیک مارکیٹ ڈالر 260 روپے سے اوپر بک رہا تھا۔مصنوعی طریقے سے ایکسچینج ریٹ پر کنٹرول کو اس وقت ختم کرنا پڑا جب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے مذاکرات شروع ہونے سے چند دن قبل 26 جنوری 2022 کو فری ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے ڈالر کی قیمت ایک دن میں 230 روپے سے 255 روپے تک جا پہنچی اور اس سے اگلے دن 262 روپے اور اسے اگلے چند روز میں 275 روپے تک جا پہنچی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here