آج١٧فروری ہے اور رمضان شریف کی آمد ہے جس کا اعلان دو ماہ پہلے سے ہو رہا ہے۔ ماشاء اللہ ہر کوئی روزہ رکھنے کی نیت سے ہے۔ سبھان اللہ ہم شاید دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں سب سے آگے ہیں اندازہ کیجئے٢٢کروڑ کی آبادی کا ملک ہے جو ہمارے حکمرانوں سے سنبھالا نہیں جارہا لیکن چمٹے ہوئے ہیں بچھو کی مانند۔ یہاں نیویارک میں ایک ماہ پہلے ہی سے گوشت(مٹن، گائے اور چکن) کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ ایک ڈالر سے دو ڈالر تک اور دوکانداروں کو اس پر بھی صبر نہیں آتا وہ جب تو لتے ہیں تو چھیچڑوں اور پٹھے سمیت ایک ایسی ہی دوکان سے جو فریش میدوز میں ہے پچھلے دنوں گائے کی شینک(بونگ) لینے کا اتفاق ہوا جس کا نام پیراڈائز ہے یہ بھی کہ یہ دوکان ہول سیلر سلام والوں کی ہے اور اسی لائن میں انکے دو ریستوران بھی ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ہم اسی دوکان سے گوشت اور دوسری اشیاء لیتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ گئے تو وہاں نئے لوگ تھے۔ اندر جہاں گوشت ملتا ہے ہم نے٨پونڈ شینک مانگی تو ایک نئے میکیکن نے کئی ٹکڑوں میں لا کر وزن کیا۔ ہمارے کہنے پر کہ اسکی صفائی کردو لیکن اس نے اوپر اندر ذرا بھی صفائی نہیں کی اور قیمت بھی٧ ڈالر پونڈ گھائی جب کائونٹر پر شکایت کی تو کہا ہم کچھ نہیں کرسکتے کچھ کہنا ہے تو آگے شیرازی ریستوران میں مالک بیٹھے ہیں ان کو بتائو۔ لہذا چہل قدمی کرتے ہوئے آگے گئے نوجوان ملک نے کہا یہ ہی قیمت ہے ہمارا کہنا تھا جب بغیر ہڈی کا گوشت 5.99ڈالر پونڈ ہے تو یہ کیوں٧ ڈالر پونڈ ہے جواب نہیں ملا، گھر آکر صفائی کی تو تقریباً ڈیڑھ پونڈ۔ چکنائی اور سّدے نکلے تصویر بنائی اور انکے دیئے نمبر پر بھیج دی۔ انکا جواب تھا آئندہ آئینگے تو انشاء اللہ ہم خیال رکھینگے” کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس دفعہ نہیں دوسرے معنوں میں یہ کہ ہم اپنی غلفت یا من مانی حرکتوں سے باز نہیں آئینگے۔ اب آئیں ہم اس دوکان کے برابر دوسری دوکان کی مثال بھی دیتے چلیں۔ جس کا نام ”فریش میدوز حلال میٹ اور گراسری ہے جہاں کیش پر ایک باحجاب خاتون ہوتی ہیں دو ماہ پہلے اُن سے ایک بکرا لیا۔ بڑا تھا لہذا لے لیا اُن کی تعریف سنی تھی کہ صحیح معنوں میں انکا ذبیح گوشت ہوتا ہے گھر لا کر پکایا تو اس میں ہیک آرہی تھی جس کے ہم عادی نہیں۔ ہم نے جاکر اُن سے شکایت کی تو انہوں نے بے چوں چرا ہماری بات کو مان لیا اور اندر سے کسی صاحب کو بلایا کہا یہ شکایت کر رہے ہیں خاتون کی اس ایمانداری پر ہم کیا کہتے بس اتنا کہ بکرا بڑا تھا یا پھر ہول سیلر نے بے ایمانی کی ہے بکرے میں بھیڑ کو ملا دیا ہے۔ خاتون نے کہا آپ گوشت واپس لے آئیں اور اپنی پسند کا لے لیں۔ بہت عرصہ بعد ہمیں محسوس ہوا کہ ابھی اسلام باقی ہے اور انسان بھی رہتے ہیں۔
یہ تمام آپ بیتی کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے پاکستانیوں کو بتائیں کہ اُن دوکانوں سے ہی گوشت لیں جہاں وہ اپنے کاروبار سے ہلال کماتے ہیں۔ ہم نے پیراڈائز حلال کو خیرباد کہہ دیا ہے جب کہ ہر کسی نے بتایا تھا کہ یہ ٹھیک گوشت نہیں بیچتے ہمارا کہناا تھا کہ وہ اگر مسلمان ہیں تو جواب انہیں دینا پڑے گا۔ لیکن جو بے ایمانی گوشت کاٹنے والے نے کی ہے اور شکایت کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اس کا جواب وہ ضرور اللہ کو دینگے۔ ہم نے دھوکہ کھایا ہے تو دوسروں کو آگاہ کرتے چلیں۔ ہمارا یہ سوال ہر گوشت بیچنے والے سے ہے کہ گوشت کیوں مہنگا ہو رہا ہے کبھی سردی کا بہانہ اور اب رمضان شریف کی آمد سے پہلے کہا جاتا ہے کہ یہودی اس کاروبار میں ہیں جو سراسر جھوٹ ہے یہ مٹن اور گائے کا گوشت سپر مارکیٹ میں آدھی قیمت میں ملتا ہے بس یہ کہ وہ حلال ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ کھجُور کی قیمت بھی بڑھا دی جاتی ہے جب کہ یہ کیلیفورنیا سے آتی ہے کیا یہ چور بازاری نہیں اور ہم مسلمان کہلاتے ہیں ہم قیمت بتاتے چلیں مٹن کی بے بی گوٹ کے دام11ڈالر سے١٣ڈالر پونڈ ہیں اگر پورا بکرا لیں۔ اس میں سے کاٹنے کے بعد٣٠پونڈ کے بکرے میں٢٢پونڈ نکلتا ہے اور اس میں بھی ہڈیاں شامل ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی گوشت خور ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان ہی نہیں جو گوشت نہ کھائے۔ اب آدھے سے زیادہ لوگ چکن پر آگئے ہیں اس میں بھی شرعیہ بورڈ سے سند یافتہ چکن کی قیمت ایک ڈالر پائونڈ زیادہ ہے اور عام حلال ایک ڈالر کم فیصلہ آپ کریں۔
پچھلے ہفتے فروری میں ہی دالوں کا عالمی دن منایا گیا۔ خوشی ہوئی کہ پاکستان میں لوگ دالیں کھانے لگے ہیں صرف وہ جو گوشت نہیں کھا سکتے اشتہار میں لکھا تھا امریکی دالیں بہترین معیار اور کم قیمت اور ذائقہ کے لئے جانی جاتی ہیں۔ اور ہر سال60لاکھ ڈالر کی درآمد ہوتی ہے۔ بتاتے چلیں یہ اشتہار امپورٹ کرنے والوں کا ہے۔امریکی صرف بند مسُور کی دال سوپ کی شکل میں کھاتے ہیں باقی یہاں پر بسنے والے ہسپانوی لوگ کھاتے ہیں بین(BEAN)کی شکل میں۔ دالوں میں بھی بھرپور پروٹین ہے لیکن ہم گوشت خورقوم ہیں ان گوشت کے کاروبار لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے ضروری ہے دالوں کی طرف آئیں۔
ایک اور بات بتاتے چلیں اپنے پاکستانی دوکانداروں کی خاص کر رمضان کے ماہ میں کرتے ہیں ویسے تو تمام سال جاری رہتا ہے اُن کا کاروبار قیمتیں من مانی رکھنے کا ایک مثال ”شان” مصالحے کی دیتے چلیں جو ایک ڈالر سے شروع ہوا تھا اور اب دو ڈالر سے تین ڈالر تک بیچا جارہا ہے اُن کا کہنا ہے ہول سیلر ہندو ہیں جو نیوجرسی میں ہیں۔ یہ ایک کبھی ختم نہ ہونے والی کہانی ہے وہ لوگ جو حکومت کے دیئے گئے فوڈاسٹمپ پر ہیں اُن کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور قیمتوں پر پابندی حکومت کے بس میں نہیں کہ وہ خود کرپٹ ہوچکے ہیں۔ بددیانتی پر ہیں صدر ٹرمپ نے جو وعدے الیکشن سے پہلے کئے تھے وہ سب کچھ بھول کر غزہ کی پٹی کو ہتھیانے کی بات کر رہے ہیں یہ کام شاید انہوں نے اپنے داماد کے لئے کیا ہے جو رئیل اسٹیٹ کا کام کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭