مسلم اتحاد کو سیسہ پلائی دیوار بننا چاہئے!!!

0
120

مسلم اتحاد کو سیسہ پلائی دیوار بننا چاہئے!!!

ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا اسرائیل کسی ایسے مسلم ملک کے ساتھ نبرد آزما ہے جو کہ اس کو پوری قوت سے جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ، 1980سے 1988میں عراق جنگ کے بعد ایران کی سرزمین پر پہلی مرتبہ جنگ کا منظر دنیا کو دکھائی دے رہا ہے ، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اب تک ایران نے کافی موثر جواب دیا ہے ، ایران کے ساتھ اسرائیل میں بھی تباہی کے مناظر عیاں ہے اور یہودی خوف کا شکار ہو کر کشتیوں کے ذریعے سمندری راستے سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ، یہودیوں کی اکثریت بنکروں کی طرف بھاگ بھاگ کر تنگ آ چکی ہے جبکہ معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں ۔اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم اُمہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف صف آرا ہو جائے، پاکستان،ترکی سمیت دیگر مسلم ممالک ایران کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ بیک ڈور پر مسلم بلاک بن گیا ہے، لیکن اب ان ممالک کو عملی طور پر بھی کچھ کر کے دکھانا ہوگاتاکہ دنیا میں مسلم اقوام کے متعلق ایک مثبت پیغام سامنے آئے۔اسرائیلی فضائیہ نے نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا بلکہ ملک کے فضائی دفاعی نظام اور بیلسٹک میزائل اڈوں کو بھی نشانہ بنایا جس کا مقصد ایران کی جوابی کارروائی کی صلاحیت کو کمزور کرنا تھا۔اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے لیے کام کرنے والوں کے نیٹ ورک نے مبینہ طور پر فوجی قیادت اور جوہری سائنسدانوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کی تھی۔اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، مرکزی مسلح افواج کے سربراہ اور فضائیہ کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے کم از کم چھ سائنسدان بھی ان حملوں میں مارے گئے ہیں۔ایک بار پھر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مرکز میں کامیابی سے داخل ہوئی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ان حملوں میں 78 افراد ہلاک جن میں بچوں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔ یہ غیر سرکاری اعداد و شمار ہیں اور تاحال آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔مبینہ طور پر موساد اس حملے کے دوران ایران کی سرزمین کے اندر سے ڈرون لانچ کرنے کے قابل تھا۔ اس پورے آپریشن کے بنیادی اہداف نطنز میں جوہری تنصیب اور پاسدارانِ انقلاب سے منسلک فوجی اڈے تھے۔ اسرائیلی فوجی منصوبہ ساز یہ حکمتِ عملی ایک عرصے سے بنائے بیٹھے تھے۔یہ ابھی اسرائیل کی جانب سے حملوں کی پہلی لہر تھی اور ایران کو اس سے شدید جھٹکا پہنچا ہے۔ اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر اور بھی بہت سے ممکنہ اہداف ہوں گے لیکن کچھ اس کی پہنچ سے دور ہیں اور مضبوط چٹانوں کے نیچے موجود زیر زمین اڈوں میں موجود ہیں۔ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے ایران کی جوہری پیش رفت کو سست کر سکے۔ایرانی سائنسدانوں کو نامعلوم حملہ آور پراسرار طور پر قتل کرتے آئے ہیں اور جوہری پروگرام کے فوجی سربراہ بریگیڈیئر جنرل فخری زادہ کو 2020 میں تہران کے قریب ایک تنہا سڑک پر ریموٹ کنٹرول مشین گن سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔اس سے پہلے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ سائبر حملے کے نتیجے میں ایک تباہ کن کمپیوٹر وائرس جس کا کوڈ نام سٹکسنیٹ تھا ایران کے سینٹری فیوجز میں داخل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے۔ایران سے باہر کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے پاس ایٹم بم ہو۔ اسرائیل، ایک چھوٹا ملک جس کی 95 لاکھ کی آبادی کا زیادہ تر حصہ شہری علاقوں میں مرکوز ہے، جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کو بقا کے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔اسرائیل سینئر ایرانی شخصیات کے متعدد بیانات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں اسرائیل کی ریاست کی تباہی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب، اردن اور خلیجی عرب ریاستیں ایران کی انقلابی اسلامی جمہوریہ حکومت کی زیادہ پرواہ نہیں کرتیں لیکن انھوں نے ایک پڑوسی کے طور پر اس کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔اب وہ اس تنازع کے اپنے ممالک تک پھیلنے کے خطرات سے بے حد بے چین ہوں گے۔اسرائیل کے لیے یہ وقت بہت اہم تھا۔ ایران پہلے ہی لبنان، شام اور غزہ میں اپنے پراکسیوں اور اتحادیوں کی مؤثر شکست یا خاتمے سے کمزور ہو چکا ہے۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیل کے حملوں کے بعد اس کے فضائی دفاعی نظام بھی کمزور پڑ چکا ہے۔وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے لیے ایک ہمدرد صدر موجود ہے اور آخر کار اسرائیل کو مبینہ طور پر خدشہ تھا کہ ایران کے یورینیم کی افزودگی کے لیے درکار کچھ اہم ساز و سامان کو زمین تلے لے جانے والا ہے۔یہ واضح ہے کہ اس آپریشن سے اسرائیل کیا چاہتا ہے: اس کا مقصد، کم از کم، ایران کے جوہری پروگرام کو کئی برس پیچھے لے جاتا ہے اور اس کی ترجیح ہو گی کہ اسے مکمل طور پر بند کروا دیا جائے۔اسرائیل کے عسکری، سیاسی اور انٹیلی جنس حلقوں میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو امید کر رہے ہوں گے کہ یہ کارروائی ایران کی قیادت کو اس قدر کمزور کر سکتی ہے کہ وہ مکمل طور پر گر جائے اور ایک نئی کمزور حکومت اس کی جگہ لے جو خطے کے لیے خطرہ نہ ہو، یہ ان کی خوش فہمی ہو سکتی ہے۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here