ڈسکہ کے بدنصیب خاندان کے ساتھ ہونے والے سانحہ کے متعلق کچھ درست معلومات اور حقائق سامنے آئے ہیں، عینی شاہدین کے مطابق یہ لوگ جہاں ناشتہ کر رہے تھے وہ حادثہ کے مقام سے تھوڑا دور تھا اور اس وقت وہ ایریا بالکل خشک تھا اور پانی کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ پہاڑوں پر2دن سے مسلسل بارش ہو رہی تھی جسکی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آگئی اور دیکھتے دیکھتے پانی کے بہائو میں اضافہ ہوا اور اچانک پانی کو آتے دیکھ کر یہ لوگ خوشی کے مارے دیوانہ وار پاگلوں کی طرح وہاں دور آگے دوڑ کرگئے تاکہ ویڈیوز اور تصاویر بنا سکیں اور کچھ لوگ پانی کے قریب بھاگ کر گئے اور وہاں سیلفیاں بناتے ہوئے فوٹو گرافی کرنا شروع کردی جبکہ ان کے کچھ رشتے دار بیٹھے رہے اور منع کرتے رہے کہ زیادہ اندر مت جائیں لیکن یہ گروہ پانی کے ساتھ سیلفیاں لیتے رہے بلکہ بیٹھے رہ جانے والے باقی افراد کو بھی بلاتے رہے کہ آجائیں اور پانی کو دیکھیں لیکن باقی رشتہ دار بیٹھے رہے اور انکو آوازیں دے کربلاتے رہے کہ واپس آجائیں اور انکو چیخ چیخ کر کہا کہ پیچھے سے پانی کا بہائو تیز ہوگیا ہے نکلو فوری لیکن اس بدنصیب خاندان کے چند افراد کا سیلفی جنون ختم نہیں ہوا اور پھر پانی کا بہت بڑا ریلا آگیا اور یہ لوگ خوفزدہ ہو کر کنارے کی طرف نہیں بھاگے بلکہ ڈر کے مارے اس ٹیلے پر چڑھ گئے اور پھر جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ان تصاویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی پوزیشن بولتے رہے لیکن پانی کا بہائو اور لیول بڑھتا گیا اور لوگ دریا کنارے ویڈیوز بناتے رہے لیکن مدد کے لئے کوئی نہیں گیا نہ ہوٹل والے اور نہ مقامی انتظامیہ آگے آئی اور پھر درد ناک سانحہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگیا، اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین انتظامیہ کو چاہئے کہ پورے پاکستان میں دریا کے کنارے تمام ہوٹلز کو مکمل سیل کر دیا جائے اور آئندہ کبھی بھی کسی کو ایسے خطرناک مقامات پر ہوٹلز اور ریسٹورنٹ بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیونکہ آگ اور پانی اپنا راستہ خود بناتے ہیں اور نیچر کا انتقام بہت بے رحم ہوتا ہے اور دریائوں کو انکے راستوں کو عزت دینی چاہیئے چاہے وہ کئی سال خشک بھی رہیں لیکن دریا اپنا راستہ کبھی بھی کسی کو نہیں دیتا اور کچھ عرصہ بعد واپس لے لیتا ہے۔
٭٭٭












