ظہران ممدانی اُمید کی کرن !!!

0
98

ظہران ممدانی
اُمید کی کرن !!!

نیویارک میں میئر کے پرائمری الیکشن میں فتح حاصل کرنے والے واحد مسلم امیدوار ظہران ممدانی نے شہر میں مسلم و پاکستانی کمیونٹی کے لیے امید کی نئی کرن روشن کر دی ہے ، ظہران ممدانی نے جیسے گراس روٹ لیول سے مہم کا آغاز کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے یہ دیگر مسلم نوجوانوں کے لیے بھی بڑی مثال بن گئے ہیںکہ زندگی میں کچھ ناممکن نہیں ہوتا ہے ۔ نیو یارک کے میئر کے انتخاب کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی پرائمری ریس میں 33 سالہ مسلمان سیاستدان ظہران ممدانی نے سابق گورنر اینڈریو کومو کو حیران کن طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے ،نیویارک کے 67 سالہ سابق گورنر اینڈریو کومو نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا کہ انہوں نے میئر کے لیے پرائمری ریس جیتنے پر ظہران ممدانی کو مبارکباد کا فون کیا ہے۔ظہران ممدانی کی انتخابی مہم ایشیائی لوگوں کے لیے کافی دلچسپی کا مرکز رہی ، ان کی مہم میں مزاہ بھی تھا اور فلمی ڈائیلاگ بھی۔یہ 1975 کی ہندی فلم دیوار میں امیتابھ بچن کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے جسے امریکہ کے شہر نیو یارک کے میئر کے انتخابی دوڑ میں شامل ایک امیدوار اپنے امیر حریف کی پالیسیوں کو متعارف کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیںحالانکہ فلم کے دوسرے ستارے ششی کپور جواب دیتے ہیں کہ ان کے پاس ‘ماں’ ہے، اس ویڈیو میں امیدوار ظہران ممدانی نمودار ہوتے ہیں اور شاہ رخ خان کے مشہور انداز میں دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے ہیں ‘آپ۔۔۔ میرے پاس آپ ہیں۔ظہران ممدانی نیویارک جیسے مہنگے شہر میں سستے کرائے کے گھر، فری بس سروس اور چائیلڈ کیئر جیسی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں،ان کا موقف ہے کہ ارب پتیوں کے پاس سب کچھ ہے، اور اب عام شہریوں کی باری ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے وعدے ناقابل عمل ہیں۔ ظہران ممدانی کا پورا نام ظہران کوامے ممدانی ہے۔ وہ 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمود ممدانی ایک انڈیا یوگانڈا نژاد سیاست کے ماہر پروفیسر ہیں جبکہ ان کی والدہ میرا نائر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں فلمساز ہیں،انھوں نے مون سون ویڈینگ اور دی نیم سیک جیسی اہم فلمیں بنائی ہیں۔ظہران اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے ہیں لیکن جب وہ سات سال کے تھے تو خاندان کے ساتھ نیو یارک آ گئے۔انھوں نے نیو یارک کے برونکس علاقے میں پرورش پائی جو کہ ایک ورکنگ کلاس اور ثقافتی تنوع سے بھرپور علاقہ ہے۔ انھوں نے ‘افریقانا سٹڈیز’ میں گریجویشن کیا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے ہیں۔ سیاست کی طرف رخ کرنے سے پہلے ظہران ممدانی نے فنکاری میں بھی اپنی قسمت آزمائی کی تھی،وہ ‘مسٹر کارڈیمم’ یعنی الائچی کے نام سے ریپ گانا گایا کرتے تھے اور 2019 میں ان کا گانا ‘نانی’ خاصا زیر بحث رہا، جس میں عالمی شہرت یافتہ مصنفہ مدھور جعفری نے ایک بے باک نانی کا کردار ادا کیا۔ان کے ایک ریپ گانے میں پاکستانی گلوکار علی سیٹھی نے بھی حصہ لیا تھا اور جو کہ ان کی حالیہ انتخابی مہم کے حمایت میں نظر آئے ہیں۔2020 میں انھوں نے نیویارک سٹیٹ اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا اور دس سال تک جیتنے والے رکن کو شکست دے دی۔وہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلمان بنے، 2024 میں ان کی شادی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ راما دواجی سے ہوئی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد ظہران نے بطور ‘فورکلوزر پریوینشن کونسلر’ کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو گھروں کو لون کی وجہ سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے اور جس کا اثر ان کی عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی سیاست پر واضح ظاہر ہے۔ ان کی مہم میں لوگوں کو کافی دلچسپی ہے کیونکہ انھوں نے ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو کہ نیو یارک جیسے مہنگے شہر کے عام لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ظہران کی میئرشپ کی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی ہے جس میں انھوں نے شہر میں رہائش، نقل و حمل اور کھانے کی سہولیات کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا ہے حالانکہ تنقید نگاروں، مثلا نیویارک ٹائمز اخبار کا ایڈیٹوریل بورڈ، کا خیال ہے کہ یہ منصوبے مالی طور پر ممکن نہیں ہیں۔ظہران کے حامیوں میں نوجوان ووٹرز، تارکینِ وطن اور ترقی پسند طبقات شامل ہیں۔شہر کے جیکسن ہائٹس جیسے علاقوں میں، جہاں جنوبی ایشیائی، لاطینی امریکی، اور مشرقی ایشیائی کمیونٹیز آباد ہیں، مقامی میڈیا کے مطابق ان کی مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ان کے لیے کام کرنے والے رضاکار انگریزی کے علاوہ ہندی، اردو، بنگلہ اور ہسپانوی زبانوں میں میں گھر گھر جا کر ان کے حمایت میں مہم چلا رہے ہیں۔ واٹس ایپ گروپوں میں پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ان کی انتخابی مہم کا دعویٰ ہے انھوں نے نیویارک شہر کی تاریخ کے سب سے بڑا فیلڈ آپریشن کیا ہے، جو تقریباً 40,000 رضاکاروں پر مشتمل ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ گھروں تک پہنچے ہیں۔ان کے کئی اہم چیلنجرز بھی موجود ہیں جو کہ ان کے حریف کومو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، مثلا بزرگ ووٹرز۔ کچھ تنظیموں نے بھی فلسطینیوں کے لیے ظہران کی حمایت اور اسرائیل کو ایک ‘یہودی ریاست’ کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے الزام پر اعتراض کیا ہے۔اس کے جواب میں ظہران نے واضح کیا ہے کہ وہ یہود مخالف بیانیے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ہر قوم، مذہب اور نسل کے لیے برابری کے حامی ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ وہ اپنے نظریے کے ساتھ نیویارک کے میئر منتخب ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here