محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پے درپے دو واقعات ایسے ہوئے جس نے لوگوں کے دل دہلا کر رکھ دیئے ہیں ۔پہلا ایک سینئر اداکارہ کے ساتھ جبکہ دوسرا ایک جواں سال اداکارہ کے ساتھ وہ دونوں مرحومہ خواتین اب اس دنیا سے جاچکی ہیں اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے کن حالات میں ایسا ہوا، سب کی اپنی زندگی ہے اور نجی زندگی و معاملات میں دخل دینا اچھی بات نہیں ہے لیکن جو کچھ ہوا وہ مشرقی معاشروں میں کوئی سوچ نہیں سکتا، ہم سب خطاکار ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں ،انسان ہیں ،اس وجہ سے جب تک ناقابل تردید شواہد نہ ہوں کسی سے بدگمان ہوکر اس پر شک کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ،سوشل میڈیا تو کسی کو بھی نہیں بخش رہا ہے نہ گھر والوں کو، نہ میڈیا کو ،نہ سوشل ورکر چھیپا صاحب کو!سچ ہے اس دنیا میں آجکل نیکی کی بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔مغرب میں رہتے ہوئے مجھے بیس برس سے زیادہ وقت گزر چکا ہے یہاں ایسے واقعات سنے اور جب پہلی بار سنا تو بڑی حیرانی ہوئی تھی، ساتھ کام کرنے والا باس اس کو چھٹیوں کے دوران کال موصول ہوتی ہے اسکا پڑوسی انتقال کرگیا تھا اور متعلقہ گھر جو پڑوس کا تھا اس میں دروازہ توڑ کر پولیس و دیگر متعلقہ ادارے داخل ہوئے اس ہی کمپنی میں ایک ایک سابقہ مکینک جب چند روز کام پر نہ آیا تو منیجر نے اس کو فائر کردیا چیف انجیئنر کو پولیس تفتیش کار کی کال موصول ہوئی، کیونکہ انتقال کرنے والے نے آخری کال چیف کو ملاکر بات کی تھی، پولیس جاننا چاہتی تھی کہ کال پر کیا بات ہوئی، اس مکینک کا کتا بھی اسکے ساتھ بھوک سے ہلاک ہوا پڑا تھا ،بیان کرنے کا مقصد یہاں ایسا ہوتا رہا ہے بلکہ تین واقعات تو مسلم کمیونٹی سے متعلقہ اشخاص کے ساتھ ہوئے جو کمیونٹی کے حوالے سے واقف کار بھی تھے آپ چند دہائی قبل آنے والا واقعہ پڑھیں جو مندرجہ زیل ہے منقول ہے وہ عورت جو ٹی وی دیکھتے ہوئے مر گئی اور کسی نے 42 سال تک اس کی غیر موجودگی محسوس نہ کی۔زگریب، کروشیا کے دل میں ایک عورت بغیر کسی نشان کے غائب ہو گئی۔ اس کا نام ہیڈویگا گولِک تھا، اور آخری بار کسی نے اسے 1966 میں زندہ دیکھا تھا۔ کسی نے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ نہ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار تھا جو اس کی گمشدگی کی اطلاع دیتا، نہ کوئی دوست جو یہ سوچتا کہ وہ اچانک خاموش کیوں ہو گئی۔ کسی کو اس کی غیر موجودگی کا احساس تک نہ ہوا۔ 2008 میں، زگریب کے حکام نے ایک پرانے اپارٹمنٹ کو دوبارہ الاٹ کرنے کی کوشش کی ایک ایسا اپارٹمنٹ جو برسوں سے بظاہر خالی پڑا تھا۔اتنا وقت گزر چکا تھا کہ لوگ بھی بھول چکے تھے کہ یہ اپارٹمنٹ اصل میں کس کا تھا۔ جب حکام نے زبردستی دروازہ کھولا، تو جو منظر ان کے سامنے تھا وہ دھچکا دینے والا اور دل دہلا دینے والا تھا۔اپنی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ہیڈویگا گولِک سامنے ایک پرانا 1960 کی دہائی کا ٹی وی، پاس ایک چائے کا کپ،اور اس کا جسم وقت کے ہاتھوں ممی بن چکا تھا۔اس کا جسم کم از کم 42 سال تک وہیں پڑا رہا مکمل تنہائی میں، دنیا کی نظروں سے یکسر اوجھل۔
یہ اپارٹمنٹ اس کا ذاتی تھا، جو اس نے سابقہ یوگوسلاویہ کے زمانے میں خریدا تھا۔
1966 کے بعد سے کوئی بھی اس اپارٹمنٹ میں داخل نہیں ہوا تھا۔
پڑوسی سمجھتے رہے کہ وہ کہیں اور منتقل ہو گئی ہے لیکن کسی نے کبھی تصدیق کرنے کی کوشش تک نہ کی۔نہ کسی نے اسے تلاش کیا،نہ کوئی خاندان،نہ کوئی دوست،نہ ہی اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج ہوئی۔
اپارٹمنٹ کا اندرونی منظر ایک وقت کے کیپسول جیسا تھا:
برتن اب بھی سنک میں پڑے ہوئے،فرنیچر پر موٹی گرد جمی ہوئی،
اور ٹی وی آج بھی کرسی کی طرف رخ کیے ہوئے
جیسے اب بھی اس عورت کو شام کی خبریں سنانے کے لیے تیار ہو
جسے یہ دنیا کب کی بھول چکی تھی۔
حمیر اصغر کے حوالے سے ڈاکٹر کامیڈین کا کہنا ہے
شہرت کی چکاچوند میں تنہائی کا انجام کیا! ایک مسلمان خاتون کو بغیر محرم اور سماجی رابطے کے یوں تنہا رہنا چاہیے تھا؟
کراچی کے شہریوں کی بے خبری پر حیرت ہوئی۔ اداکارہ حمیرا اصغر، جو ڈیفنس فیز 6 اتحاد کمرشل کی چوتھی منزل پر واقع ایک فلیٹ میں سات سال سے اکیلی رہائش پذیر تھیں، گزشتہ ایک ماہ سے اپنے گھر میں بے جان حالت میں پائی گئیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آس پاس کے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہو سکا۔ فلیٹ کے مالک نے کرایہ نہ ملنے پر قانونی کارروائی شروع کی تھی، اور جب عدالتی اہلکار فلیٹ خالی کروانے آئے تو دروازہ کھولنے پر انکشاف ہوا کہ اداکارہ انتقال کر چکی تھیں
اب اکیلے رہنے والی خواتین نے ان پے درپے واقعات سے کچھ سبق سیکھتے ہوئے چند اقدامات اٹھائے ہیں کیونکہ خوف اب سب کو ہی ہے جب تک اندر کی اصل کہانی کا معلوم نہیں ہوجاتا دنیا کشمکش میں رہے گی یہ کسی جرائم پیشہ یا دشمنی رکھنے والے کا کام بھی ہوسکتا ہے جو تاک میں بیٹھا ہو ۔
اداکارہ طوبی انور نے بتایا ہے اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کے بعد تنہا رہنے والی اداکاراوں کی حفاظت اور ان سے رابطے میں رہنے کے لیے واٹس ایپ پر گروپ بنا لیا گیا۔حمیرا اصغر کی موت کے بعد شوبز کی سینئر اداکاراوں نے کراچی میں تنہا رہنے والی اداکاراوں کی حفاظت، ان سے رابطے میں رہنے اور انہیں مدد فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر واٹس ایپ گروپ بنا دیا۔
طوبی انور نے تصدیق کی کہ فوری طور پر فی الحال واٹس ایپ گروپ بنالیا گیا ہے، جہاں ان تمام اداکاراوں کو ایڈ کیا گیا ہے جو کراچی میں تنہا یا خاندان کے بغیر رہتی ہیں۔
گروپ کے ضوابط کے تحت تنہا یا اہل خانہ کے بغیر کراچی میں رہنے والی اداکاراوں کی ہفتہ وار اٹینڈس چیک کی جائے گی جب کہ انہیں ذہنی صحت سمیت مالی مشکلات کے حوالے سے بھی مدد فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حمیرا اصغر کی لاش ملنے کے بعد شوبز انڈسٹری سکتے میں ہیں، خصوصی طور پر وہ اداکارائیں پریشان ہیں، جو کراچی میں تنہا رہتی ہیں۔
طوبی انور کے مطابق ان کا تعلق تو کراچی ہے، وہ خاندان کے ساتھ رہتی ہیں لیکن بہت ساری اداکارائیں ایسی ہیں جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہیں رہتیں، ان کی حفاظت اور انہیں تعاون فراہم کرنے کے لیے واٹس ایپ گروپ بنالیا گیا ہے، اس ضمن میں مزید بہتر روابط کی کوششیں کی جائیں گی۔
امید ہے آئندہ کوء بھی انسان اس حالت میں دنیا سے رخصت نہیں ہوگا اور ایسے حادثات نہیں ہونگے
٭٭٭














