آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی!!!

0
113

میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے، اگست میں لاہور سے شکاگو پہنچا تو کلچرل شاک سہتے ہوئے، امریکہ میں کھیلے جانے والے ایک عجیب و غریب کھیل سے بھی واسطہ پڑا۔ ہر سال اگست سے جنوری تک کھیلے جانے والے اس کھیل کو فٹ بال کا نام دیا جا رہا تھا جبکہ جس قسم کا فٹ بال کا کھیل ہم نے پاکستان میں دیکھا تھا اس سے یہ فٹ بال بالکل ہی مختلف نظر آیا۔ پاکستان والے فٹ بال کو تو امریکی Soccer کہتے پائے گئے۔ امریکن فٹ بال میں دنگا زیادہ اور فٹ بال بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ امریکہ کے اس مقبولِ عام کھیل کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امریکی قوم تو پاگل پن کی حد تک وحشی ہے۔ پچھلے دس پندرہ سالوں میں، اس کھیل کے قواعد و ضوابط میں ترامیم کر کے، اس کے وحشیانہ پن میں کچھ کمی تو کی گئی ہے لیکن پھر بھی اسے کھیلتے ہوئے، ہر ہفتے بیسیوں کھلاڑی زخمی ہوتے ہیں کیونکہ اس جدید دور میں بھی نیشنل فٹ بال لیگ (NFL) کے اسٹیڈیم، کھیل کے دوران زمانہ قدیم کے روم کے وہ اکھاڑے نظر آتے ہیں جہاں انسانوں کو بے رحمی سے جانوروں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا۔میر تقی میر کے الفاظ میں،
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کے بھی زنجیرِ پا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میر
تن میں ہمارے جان کبھی تھی بھی یا نہ تھی
امریکن نیشنل فٹ بال لیگ (NFL) کے وحشیانہ پن کا ذکر میں آج اس لئے کر رہا ہوں کہ چند دن پہلے ہی نیو یارک شہر کے مرکزی علاقہ مین ہٹن میں واقع NFL کے ہیڈکوارٹرز پر Shane Tamura نامی ایک شخص نے اپنی رائفل سے اچانک حملہ کردیا۔تین دیگر بے گناہ لوگوں کے ساتھ ساتھ اس نے نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ کے ایک بنگلہ دیشی نژاد، چھتیس سالہ مسلمان افسر، دیدار الاسلام کو بھی شہید کر دیا۔ دو معصوم بچوں کے باپ، دیدار الاسلام کی بے وقت موت نے نیو یارک و نیو جرسی کی مسلم کمیونٹی کو بے حد اداس تو ضرور کیا لیکن پولیس ڈپارٹمنٹ اور دیگر امریکی پڑوسیوں نے جس والہانہ انداز سے آفیسر دیدار الاسلام کی فیملی اور دوستوں کے ساتھ، مشکل وقت میں یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہ بھی انتہائی قابلِ ستائش ہے۔ آفیسر دیدار الاسلام کی آخری رسومات میں نیویارک اسٹیٹ کی گورنر، نیویارک سٹی کے مئیر ایرک ایڈم اور نیویارک سٹی کی پولیس چیف، جیسیکا ٹِش کے علاوہ NFL کے کمشنر راجرز گوڈیل نے بھی شرکت کی۔ جگر مراد آبادی کے الفاظ میں،
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا مرا غم غم زمانہ
ایک خوبصورت مسجد میں تقریر کرتے ہوئے، پولیس چیف نے آفیسر دیدار الاسلام کیلئے بعد از مرگ محکمانہ ترقی کا بھی اعلان کیا۔ دیدار الاسلام کے خاندان کی خواتین کو گلے لگاتے ہوئے، پولیس چیف خاصی جذباتی ہو گئیں۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کے ہزاروں ملازمین نے اپنے دوست اور ساتھی افسر کو جب آخری بار رخصت کیا تو ہر آنکھ اشک بار تھی، فضا بے حد سوگوار تھی اور آسمان بھی کچھ اس طرح کھل کر رویا کہ شدید گرمی، خوشگوار خنکی میں تبدیل ہو گئی۔ نیو یارک کے ہیلی کاپٹرز نے متاثرکن اُڑان کے ذریعے اپنے اس وفادار افسر کو تعظیم پیش کی تو خاندان اور دوستوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے۔ نمازِ جنازہ کے ادائیگی کے بعد شرکا دیر تک آفیسر دیدار الاسلام کی مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ کامل شطاری نے بھی خوب کہا تھا کہ
محسوس یہ ہوا مجھے احساس غم کے ساتھ
میں اس کے دم کے ساتھ ہوں، وہ میرے دم کے ساتھ
نیو یارک کے چار افراد کی ناگہانی موت امریکی فٹ بال کے وحشیانہ پن کا نتیجہ ہے۔ قاتل شین ٹمورہ کو امریکن فٹ بال کے کھیل کے دوران سر میں ٹکروں سے لگنے والی ذہنی بیماری نے مجبور کردیا اور وہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے NFL کے مرکزی دفتر آپہنچا اور بے دریغ گولیاں چلا دیں۔ کاش اس کھیل کی اصلاح ہو جاتی اور کھلاڑیوں کو خطرناک چوٹوں سے بچایا جا سکتا اور آج دیدار الاسلام کے معصوم بچے یتیم نہ ہوتے۔ آفیسر دیدار الاسلام اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ اس اندوہناک خبر سے اس کے والد صاحب اسٹروک جیسے مرض کا شکار ہو گئے۔ اللہ انہیں صحتِ کاملہ سے نوازے۔ میر کا یہ شعر بھی اسی حقیقت کی غمازی کر رہا ہے۔
آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی
امریکن فٹ بال کا شمار، اپنی ساری وحشت کے باوجود، امریکہ کے مقبول ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔ امریکی، اسی کھیل پر سب سے زیادہ جوا بھی کھیلتے ہیں۔ یہ جوا اس کھیل کی وحشت میں مزید اضافے کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ اس طرح ہر میچ کو ہر قیمت پر جیتنے کی جائز حدود سے بھی بڑھ کر کوششیں کی جاتی ہیں۔ امریکن قوم کے وحشیانہ پن کی ایک بڑی مثال تو اس کا جاپان میں ایٹمی ہتھیاروں کا تباہ کن استعمال رہا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر، صیہونی ریاست کے ذریعے، نہتے لوگوں پر، ڈھائے جانے والے مظالم کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ آج معصوم بچوں کے لاشے اٹھائے بلکتی سسکتی ماں کی آہیں بھی امریکی وحشیانہ پن کے سامنے کوئی اثر نہیں چھوڑ پا رہیں۔ NFL کا ایک اور سیزن چند دن پہلے شروع ہوا ہے اور تماشائیوں کیلئے وحشت ناک تماشوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ دنیا بھر کی تباہ شدہ بستیاں اور ان سے اٹھتا ہوا دھواں، امریکی شہریوں کی لاپرواہیوں کا غماز ہے۔ ہمارے ٹیکس ڈالروں نے حکمران طاقتوں کو ظلم و جبر کے ایسے مواقع فراہم کر دیئے ہیں کہ انکو کسی طرح کی جوابدہی کا احساس ہی نہیں۔ امید خواجہ نے بھی تو یہی شکوہ اور سوال کیا ہے،
راستے دھندلا گئے ہیں، روشنی والو سنو
وعدہ جلنے کا کیا تھا، ٹمٹمانے کا نہیں
کب ڈھلے گی شامِ غم، کب ختم ہوگا ظلم و جبر؟
زندگی انساں کی ہے، عنواں فسانے کا نہیں
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here