امریکہ کے دوسرے ملکوں میں سفارتخانوں کے باہر اور امریکہ میں دوسرے ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ سکیورٹی کو یقینی بنانا اور سکیورٹی کے نام پہ عوام کے حقوق غصب کرنا دو مختلف باتیں ہیں جو ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں۔ پاکستان کے شہری سفارتخانوں کو باہر سے دیکھنے کا حق بھی رکھتے ہیں اور ان کے باہر احتجاج کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان غزہ کی طرف جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلے میں سوار تھے، اسرائیلی فورسز نے حملہ کرکے مشتاق احمد سمیت بیشتر افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان اسرائیلی قید میں ہیں۔ انہیں اذیت دی جا رہی ہے مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان اسرائیلی جیل میں ہیں اور ان کی قید ہی ملک کے لیے ایک بڑا سکیورٹی خطرہ ہے۔ مگر شہر کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ اس کے باوجود، جمعہ کو مین سٹریم پاکستانی میڈیا مسلسل ہماری سفارتکاری کی کامیابیوں کے گیت گاتا رہا۔ یہ گیت اس میٹھی گولی کی طرح ثابت ہوئے جو یہ میڈیا اپنے تند و تیز مباحثوں کے برتن میں طاقتور حکمرانوں کو پیش کرتا ہے۔ اینکر چیخ چیخ کر اپنا گلہ بٹھا لیتے ہیں تاکہ فیصلہ ساز یقین کریں کہ انہوں نے بیرونی دنیا اور اندرونِ ملک بڑے کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جو کوئی نیشنل پریس کلب کے باہر بیٹھتا ہے، وہ کسی کا ایجنٹ ہے، اور یہ کہ انتظامیہ ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہے۔ یہ وہ نشہ آور دوا ہے جو وہ اپنے آقاوں کو چمچ سے کھلاتے ہیں۔ ایسی پین کلر دوائیاں صرف مرض کی علامات کم کرتی ہیں، علاج نہیں کرتیں۔ کسی بھی تھانے یا انتظامیہ کے دفتر میں جائیں اور دیکھیں اصل ایجنٹ کون ہے۔۔ میں اس پر زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ یہ اصل مسئلہ نہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ کامیابیوں کے گیت محض وقتی طور پر ہماری سفارتی ناکامیوں کی علامات چھپاتے ہیں۔ یہ ان کا کوئی مستقل علاج نہیں۔ یہ ناکامی اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران کھل کر سامنے آ گئی۔ آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ہمارا نظام حکومت کیا ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کون بناتا ہے۔ وزیر غیر ملکی صحافیوں کو کچھ اور بتاتے ہیں اور ان کے قریبی صحافی پاکستانی عوام کو کچھ اور بتاتے ہیں۔ اصل سفارتی کامیابی اس سفیر کی مہارت اور پیشہ ورانہ صلاحیت میں ہے جو براہِ راست سربراہِ ریاست کی نمائندگی کرتا ہے۔ سفارتکاری نوکر پیشہ افراد کا کام نہیں۔ جب نوکر پیشہ افراد کو یہ کام دیا جائے تو ایک بھاری بھرکم وزارت سفیر اور سربراہ کے درمیان حائل ہو جاتی ہے تو سفارتی عمل کی کامیابی متاثر ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں نئے نئے عہدے اور کئی شمع جونیجو پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں کوئی کیسے کسی سے کس بات کا جواب طلب کر سکتا ہے جب وزیر خارجہ یہ کہہ دے کہ امریکی صدر نے غزہ کے غلط منصوبے کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ امریکہ کے اگلے دورے میں ٹرمپ کی اصلاح کروا دیں گے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کے ہر شہری کو بیرونِ ملک اس کا سفیر سمجھنا چاہیے، خاص طور پر اسرائیل جیسے ملک میں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دیگر فلوٹیلا کے ارکان کے ساتھ رہا کر دیے جائیں، جو زیادہ تر غیر مسلم یورپی بائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن یہ لازم ہے کہ اسلام آباد اپنی عوام کو گلے لگائے تاکہ اس کی کوئی بیٹی وہ کرب نہ جھیلے جو اس وقت حمیرا طیبہ جھیل رہی ہیں۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد کی اسرائیلی حراست سے رہائی کے معاملے پر دفتر خارجہ نے اہم پیشرفت سے آگاہ کر دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ، اردن کے دارالحکومت عمان میں موجود اپنے سفارت خانے کے ذریعے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی بحفاظت واپسی کے لیے انتھک کوششیں کر رہی ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ برادر ملک اردن کی حکومت کے قیمتی تعاون سے ہمیں امید ہے کہ یہ عمل آئندہ چند روز میں کامیابی سے مکمل ہو جائے گا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم برادر ملک اردن کی حکومت کے مثالی تعاون اور فراخدلانہ حمایت پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ گزشتہ روز بھی دفتر خارجہ نے اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت دیگر پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق بیان جاری کیا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ایک دوست یورپی ملک کے سفارتی ذرائع کے ذریعے ہم نے تصدیق کی ہے کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد اسرائیلی قابض افواج کی تحویل میں محفوظ اور خیریت سے ہیں۔ ہمیں مزید آگاہ کیا گیا ہے کہ مقامی قانونی طریقہ کار کے تحت سینیٹر مشتاق احمد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور جب ملک بدری کے احکامات جاری ہوں گے تو ان کی واپسی کو فوری بنیادوں پر یقینی بنایا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق پاکستان اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر رابطے میں ہے تاکہ اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے اپنے شہریوں کی سلامتی اور فوری واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ قافلے میں شامل درجنوں افراد کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم مشتاق احمد سمیت دیگر افراد اب بھی اسرائیلی حراست میں ہیں۔
٭٭٭














