میرینز بیٹوں کے باپ کو بھی نہیں چھوڑا گیا!!!

0
70
حیدر علی
حیدر علی

یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز اِنفورسمنٹ چند ہی عرصے میں ایک ایسی سیکیورٹی ایجنسی بن کر ابھری ہے جسکا نام سن کر چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں، گزشتہ ہفتے ہی اِس کے ایک اہلکار نے ایک خاتون کو فیڈرل پلازہ کے احاطہ میں جہاں امیگریشن کورٹ کی کاروائی ہورہی تھی، اتنی زور سے دھکا دے کر زمین پر پٹکا تھا جس کی آواز دور دور تک سنائی دی تھی۔ اِس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایکواڈور سے تعلق رکھنے والی مونیکا الزبتھ موریتا اپنے بچوں کے ساتھ جس میں دو لڑکیاں بھی تھیں اپنے شوہر کے مقدمہ کی سماعت میں جس کی ڈیپورٹیشن کی کاروائی ہورہی تھی گئی تھی جب اُسکے شوہر کو آئس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اُسے حراست میں لیا جارہا ہے تو اُن سبھوں نے اُسے گھیر کر زور زور سے چیخنا اور رونا شروع کردیا، اِسی دھکم دھکا میں آئس کے اہلکار نے مونیکا الزابتھ کو دھکا دے کر فرش پر گرا دیا، یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پہلے میڈیا کی زینت بنی اور پھر سارے ملک میں پھیل گئی، اُس کے فورا” بعد ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی نے یہ اعلان کیا کہ مذکورہ آئس کے آفیسر کو اُس کے فرائض سے سبکدوش کردیا گیا ہے، اور اُس کی یہ معطلی غیرمعینہ مدت تک رہے گی جب تک کہ اُس کے خلاف تحقیقات مکمل نہ ہوجائے تاہم نیویارک سٹی کے کمپٹرولر براڈ لینڈر نے اِس واقعہ کو ہولناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ خاتون اور اُس کے شوہر کے سیاسی پناہ کا کیس زیر سماعت ہے، اور وہ لوگ بلاجواز آئس کے آفیسر کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں اگرچہ یہ واقعہ امریکیوں کی توجہ کا باعث بنا ہے لیکن یہ آئس اور دوسری بارڈر ایجنسیاں کے اہلکاروں کی غیرقانونی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی عکاسی کرتا ہے۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق آئس کے مذکورہ آفیسر کو دوبارہ اُس کی ڈیوٹی پر بحال کر دیا گیا ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکا ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے جس میں انسانی حقوق کی پائمالی، بلاوجہ گرفتاری اور ظلم و زیادتی اِس کی پہچان بن گئی ہے۔ ابتدا میں تو یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ صرف اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے جو کسی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے ، لیکن تازہ ترین صورتحال میں سِول رائٹس کے نمائندوں نے یہ انکشاف کیا کہ جیل کی کوٹھریاں جرائم پیشہ افراد کے بجائے بے گناہ اور اُن سادہ لوح لوگوں سے بھر گئیں ہیں جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر یہاں مقیم تھے۔نارکیسو بارنکوجس کا تعلق میکسیکو سے ہے اِس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہے، نا رکیسو آج سے تیس سال قبل سرحد عبور کرکے امریکا میں داخل ہوا تھا،اُس وقت سے تاہنوز وہ باغبانی کا کام کیا کرتا تھا، 21 جون 2025 ء کی صبح وہ اپنے کام کے سلسلے میں سانتا انا ، کیکیفورنیا میں واقع آئی ہوپ ریسٹورنٹ جارہا تھا، وہاں کا کام ختم کرنے کے بعد وہ پنیر خریدنے کیلئے ایک اسٹور میں چلا گیاتاکہ رات کے ڈنر کو وہ اپنی بیوی کے ساتھ پکا سکے لیکن اُس نے ہوم ڈپو کو نظر انداز کردیا جو پنیر کے اسٹور کے ٹھیک سامنے واقع ہے،مائیگرنٹس عشرے عشرے سے ہوم ڈپو کے سامنے صبح صبح اکٹھا ہوتے ہیں تاکہ کوئی کنٹریکٹر یا مالک مکان اُنہیں دِن کی دہاری کیلئے لے جائے لیکن ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے دور میں ہوم ڈپو آئس اور دوسری
فیڈرل ایجنسیاں کیلئے ایک پرائم ٹارگٹ بن گیا ہے جہاں وہ نارکیسو جیسے غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کرکے اُن کے ملک واپس بھیج دیتے ہیں، مسٹر نارکیسو آئی ہوپ کے لان کی جھاڑیاں صاف کر رہا تھا جب آئس کے نقاب پوش اہلکاروں نے اچانک اُسے دبوچ لیا ۔ اُس نے گھاس کاٹنے والی مشین کو غیر ارادی طور پر اوپر اٹھا لیا تھاجس کی وجہ کر آئس کے اہلکاروں نے اُس پر یہ بھی الزام عائد کردیا کہ وہ اُن پر حملہ کرنا چاہتا تھا، نارکیسو کی گرفتاری دوسرے ہسپانویوں کیلئے تشویش کا باعث بن گئی جو اُسی کی طرح غیرقانونی طور پر رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں، وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جرائم پیشہ مائیگرنٹس کو گرفتار کرنے کا اقدام اپنی حدود سے زیادہ تجاوز کرگیا ہے۔
نارکیسو کے تینوں لڑکوں کی پیدائش امریکا میں ہوئی تھی اور وہ تینوں امریکی سٹیزن ہیں۔25 سالہ
الیہاندرو فوج میں کمباٹ انجینئر ہے جو امریکی فوج کی واپسی میں مدد کیلئے افغانستان گیا تھا۔23 سالہ لوئیس جسے بھی میرینز سے سبکدوش کردیا گیا ہے ، اور وہ اب اپنا کام شروع کرنا چاہتا ہے۔ 21 سالہ
ایمانوئیل جو اب تک میرنز میں ہے اپنے والد کو اسپانسر کرسکتا ہے لیکن ہزاروں ڈالر کی لیگل فیس اُسے پس و پیش میں مبتلا کر رہی ہے۔نارکیسو کی بیوی ہرناندیز جو ایک امریکی شہری ہے بھی اُسے سپانسر کر سکتی ہے۔
نارکیسو گرفتاری کے دوران اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئس کے ایک اہلکار نے اُسکے زخمی چہرے اور سر پہ پانی پھینکا تھا اور اُس نے اُس سے گذارش کی تھی کہ اُس کے ہاتھ کو پشت کی بجائے
سامنے سے باندھا جائے تاکہ اُس کے درد میں کمی آسکے۔ اُس نے کہا کہ وہ رو رہا تھااور کہہ رہا تھا کہ وہ فرار نہیں ہوگا، وہ صرف زخم اور درد سے دوچار ہے،رات کے آخری پہر تک وہ اور دوسرے 70 مائیگرنٹس کے ہمراہ ایک بیسمنٹ میں جہاں ہر وقت لائٹ جلتی رہتی تھی قید کر دیئے گئے تھے، بیسمنٹ اتنا تنگ تھا کہ بعض مائیگرنٹس کھڑے کھڑے سوتے تھے، وہاں صرف ایک واش روم تھا جس سے بدبو آتی تھی،دو دِن کی تگ و دو کے بعد نارکیسو کے بیٹے الہاندرو نے اپنے وکیل کی مدد سے اُس جگہ کا پتہ لگا لیا جہاں وہ قید تھا تاہم اُسے نہیں اُس کے وکیل کو ملاقات کی اجازت مل سکی۔اُس کی آزادی کی اب صرف ایک ہی راہ ہے کہ اُس کی بیوی اُسے اسپانسر کرسکے لیکن اُس کاروائی کو مکمل کرنے کیلئے اُسے میکسیکو واپس جانا پڑیگا اور اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اُسے کامیابی مل ہی جائے۔
ّّ

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here