پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
جس طرح پر موذی مرض کیلئے کوئی نہ کوئی علاج قدرت نے فراہم کیا ہے۔اس طرح ہر ظلم اور ظالم کیلئے ایک موسیٰ اور ایک حسین بھی پیدا کیا ہے۔اس لئے کوئی ظلم سدا نہ ہی رہتا نہ ہی ظالم رہتا ہے۔عدل وانصاف کا نظام پائیدار ہوتا ہے لیکن بے انصافی اور ظلم کے نظام ہرگز پائیدار نہیں ہوتاجس طرح جن ممالک میں ظلم اور لاقانونیت نافذ رہتا ہے۔اس ممالک کا شیرازہ جلد ہی بکھر جاتا ہے۔بالکل اس طرح جن اداروں میں بے انصافی انکے اندرونی نظام کا حصہ ہوتا ہے۔وہ ادارے بھی زیادہ وقت قائم نہیں رہ سکتے۔اگر ملک،ادارے اور معاشرے کا خاتمہ عدل وانصاف پر منحصر ہیں انکی بقا کیلئے تو ایک فرد جو ملک معاشرے اور ادارے کی بنیادی اینٹ سے بلکہ بنیاد سے اسکے لئے کیسے ممکن ہے۔اپنے معاملات میں عدل نہ کرکے بھی قائم ہر سکے کیونکہ کائنات کا کل نظام ایک توازن پر قائم ہے اور وہ توازن عدل کے ترازو میں موجود ہے۔یہی عدل واحسان ہی اسلام کی بنیاد ہے اور مذہب اسلام دین فطرت سے ورنہ دیکھا جائے کہ اسلام جوکہ ہندومت،عیسائیت اور موسائیت(یہودی)میں سب سے آخر اور کمسن مذہب ہے جو دور جہالت میں بدووں کے دس میں اور اس دور میں پیدا ہوا۔جب وہاں کے لوگ بیٹیوں کو زندہ درگو کر دیتے تھے پھر اسی معاشرے میں اسی دور میں ہمارے نبیﷺ آخر زمان نے اپنی بیٹی کو وہ درجہ دیا کہ وہ جب تشریف لائیں تھیں تو محمد عربی احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔انکے ساتھ جو بھی اصحاب شریک محفل ہوتے انہیں بھی احتراماً کھڑا ہونا پڑتا۔اتنی بڑی تبدیلی ظہوراسلام کے چند برسوں میں آئی جوکہ ایک معجزے سے کم نہیں پھر عورتوں کے حقوق کی بات کی گئی غلاموں کے حقوق اور تواور قیدیوں کے حقوق بنا کر چودہ سو سال پہلے انسانی حقوق کا چارٹر دیکر اسلام نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک ترقی پسند مذہب ہے جس کی بنیاد عدل اور احسان پر مشتمل ہے۔اقلیتوں کے ساتھ بہتر درس دینے والا محسن انسانیت ہمارے نبی پاک نے درگزر کی بات کی، ہمیشہ معاف کرنے کو فضیلت بخشی آج جو دین اسلام کے داعی بن گئے ہیں۔انہوں نے دین کے تصور کو جتنا مجروح کیا ہے، کیا نہیں کیا ؟قبل اسلام کے دور کی وحشانیت ظلم وبربریت کا رویہ اپنا کر نعوذباللہ دعویٰ کرتے ہیں ،ہمارے نبی پاک کی ناموس کیلئے یہ سب کچھ کر رہے جوکہ سراسر نبی کے پیغام اور سنت کے برعکس ہے اور الزام دے رہے ناموس رسالت کو انہوں نے تو کچرا پھینکنے والوں کی تیمارداری کی انہوں نے تو دھیمے انداز میں گفتگو کرکے اس تہذیب کی بنیاد ڈالا دی جو مہذب ترین انداز حیات کا نمونہ ہے۔مغرب نے اسلام کے عدل واحسان کو اپنا دیا امریکی اعلیٰ ترین عدالتوں کے باہر جو ہمارے رسالت ماب کیلئے تعریفی کتبے لگا رکھے ہیں۔وہ اس بات کو باوجود غیر مسلمہ ہونے کے اسلام کے نظام عدل کی برتری کو تسلیم کیا ہے اور ہم مسلم معاشروں نے ظلم وبربریت، بے انصافی اور جہالت کے غیر انسانی نظام کو اپنا لیاجس میں نہ کوئی عدل واحسان تو کیا ہوگا کوئی رحم کی جھلک تک نہیں۔
گم شدہ لوگوں کا مسئلہ(MISSING PERSONS)کو لے عدالتیں خاموش ہیں۔سارے سیاستدان جب اپوزیشن(حزب مخالف)میں ہوتے ہیں تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ گم شدہ لوگ ہوتے ہیں۔اقتدار میں انکے کے بعد آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔موجودہ وزیراعظم نے تو انتہا کردی ہے کہتے تھے گم شدہ لوگوں کو اغوا کرنے والے رہیں گے یا میں رہونگا۔اب اقتدار مل گیا اقتدار کی چُسنی منہ میں لیکر انہیں اغوا کاروں کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔عوام سے کیا ہوا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا اور اغوا شدہ ،گم شدہ لوگوں کے بچوں،بہنوں اور ماﺅں سے جو عمران خان نے وعدے کئے تھے آج وہ اپنی مایوس آنکھوں سے وزیراعظم کی طرف دیکھ کر بددعائیں دے رہے ہیں۔کبھی سوچا ہے کہ عمران خان تمہارے بچے اسی طرح اغواءہوئے ہوتے انکا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا اور تم سے کوئی یہ وعدہ کرتا کہ اقتدار میں آکر میں تمہارے بچے بازیاب کراﺅونگا اور پھر کچھ نہیں کرتا ایسے اقتدار اور ایسی ایمانداری کے دعوے پر لعنت ہے۔خدا ایسی جھوٹی آس دلانے کو برباد کریگا۔ظلم کرنے والوں کے اندر تو دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں ہیں۔جنرل اسد درانی کو فوج نے غدار قرار دیدیا ہے۔وہ بھی فوج کے جھٹے کھول رہا ہے۔عمران خان تم بھی اللہ کے عذاب سے ڈرو آج تم ظلم وستم کے اس نظام میں شراکت دار بن بیٹھے ہو جوکہ زیادہ وقت چلنا نہیں تم بھی چھوٹے فرعون بن کر مستند اقتدار سے چمٹے ہوئے ہو تمہارے لئے بھی اللہ کی ذات نے کوئی نہ کوئی موسیٰ پیدا کیا ہے۔جو اس ظلم کے نظام کو دریا برد کریگا۔(انشاءاللہ)
٭٭٭