نفرت کا تدارک کیسے ہوگا؟

0
123
جاوید رانا

عید الفطر اُمت مسلمہ کیلئے اہم و مقدس تہواروں میں ایک، دنیا بھر میں اُمت کیلئے جہاں ماہ صیام میں عبادتوں، ریاضتوں اور تزکیہ نفس کے ناطے شکر و تہنیت کا دن ہے، وہیں باہمی اخوت، محبوت و خیر سگالی کا بھی اظہار ہے۔ خاندان، احباب، برادریوں اور کمیونٹی میں ملاقاتوں، دعوتوں اور جب گلے سے مل گئے سارا گلا جاتا رہا کی خوبصورت مثال ہے، الحمد اللہ شکاگو میں بھی عید سعید کے موقع پر خوشی و محبت کا سلسلہ رہا اور باہمی خلوص کے بھرپور مظاہر سامنے آئے لیکن ایک فرق یہ رہا کہ اس بار آپس کے معاملات و موضوعات کے برعکس میری کمیونٹی کے درمیان اہم ترین موضوع پاکستان کی موجودہ نازک سیاسی صورتحال اور اس کے مضمرات پر تھا۔
اسلام کی بنیاد پر قائم اور دنیا کی واحد نیوکلیائی مملکت اس وقت جن حالات سے گزر رہی ہے اور سیاست، معاشرت، معیشت اور اخلاقی انحطاط سے دوچار ہے وہ ہر پاکستانی کیلئے خدشات، تحفظات اور خدانخواستہ کسی بدترین ناگہانی کی پیش بنی کا باعث ہے۔ یوں تو ہم پہلے بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے عوام سیاسی تماشہ بازیوں، رہبری کے نام پر رہزنی و خود غرضی کے زہر میں ڈوبے رہنمائوں و انتظامی ذمہ داروں کے رویوں اور اجارہ داریوں کی وجہ سے ایک قوم کے برعکس ایک ہجوم ہی نظر آتے ہیں تاہم ملک و قوم پر آئی کسی ناگہانی یا ملک دشمنی کیخلاف سیسہ پلائی آہنی دیوار بن جاتے ہیں۔ اس وقت ملک جس دور سے گزر رہا ہے، اس میں حالات ایک ایسی سچوئیشن پر نظر آرہے ہیں جہاں معاملات میں سدھار کے برعکس مزید بگاڑ ہی نظر آرہاہے دوسرے لفظوں میں!
کوئی تو کلیم آئے حامل ید بیضائ
کچھ نظر نہیں آتا چار سو اندھیرے ہیں
وطن عزیز کی تاریخ بیرونی آقائوں خصوصاً انکل سام کے مفادات اور ان کے ایجنڈوں پر اندرونی آلۂ کاروں و سیاسی غلاموں کے اقدامات سے بہت طویل ہے اور بہت سے اُتار چڑھائو کی عکاس بھی رہی ہے لیکن ہمارے عسکری اداروں کی حب الوطنی اور مملکت خداداد کے عوام کے جذبہ و استقامت کے باعث وطن عزیز بحمد اللہ ایمان، اتحاد و تنظیم کے ستونوں پر قائم و دائم رہا ہے۔ موجودہ حالات اور عمران خان کی حکومت ختم کئے جانے کے حوالے سے جو کچھ ہوا اور انکل سام کی منشاء و مرضی کے مطابق ہمارے اقتدار کے سیاسی غلاموں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کے اصل حقائق سے بھی اب تو امریکہ کی دفاعی تجزیہ کار اور حکومتی حلقوں میں اہم آواز ڈاکٹر ربیکا گرانٹ نے اصل حقیقت آشکار کر دی ہے کہ پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کے پس پُشت امریکہ ہی کار فرما ہے اور اس کا مقصد عالمی اُفق پر امریکہ کے مقابل بڑھتی ہوئی طاقتوں روس و چین سے خصوصاً کپتان اور اس کی حکومت کے بڑھتے ہوئے تعلقات و معاہدات کیساتھ روس و یوکرائن جنگ میں پاکستان کی غیر جانبداری اس کی وجوہات تھیں۔
گزشتہ کئی ماہ میں وطن عزیز میں اس حوالے سے جو صورتحال ہوئی اس سازش کے جو اثرات و نتائج سامنے آئے، ان کی تفصیلات سے نہ صرف تمام پاکستانی پوری طرح سے آگاہ ہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان سے قطب شمالی و جنوبی تک عمران خان کی حمایت اور اس پاکستان دشمن سازش کیخلاف شعلۂ حوالا بنے ہوئے ہیں۔ اس سازش میں آلۂ کار بھکاری سیاسی اشرافیہ نے تو اپنا گھنائونا و غلامانہ کردار ادا کیا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان کی سلامتی، تحفظ و استحکام اور آئین و قانون کے محافظوں کا کردار بھی واضح نظر نہیں آیا، توجیہات، منطق اور دلائل کی روشنی میں وضاحتوں اور فیصلوں کے بیانیوں کا اظہار کیا جا رہا ہے، دوسری جانب کپتان کا بیانیہ، استدلال اور عزم نہ صرف ملک بھر بلکہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کا مؤقف بن چکا ہے، یہی نہیں بلکہ ہمارے ذرائع کے مطابق وطن عزیز کے ذمہ دار و مقتدر آئینی ریاستی و انتظامی حلقوں میں نزاعی و منقسم صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے جو ایک خطرناک و متحارب صورتحال کو جنم دے سکتی ہے ایک جانب عوام کا عمران خان کی حمایت اور اہم ترین اداروں کیخلاف طوفانی احتجاج انتہائی حدوں کو چُھو رہا ہے تو دوسری جانب ڈیجیٹل محاذ آرائی میں اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوج کے سربراہ ، ریاستی اداروں، عدلیہ کے ذمہ داروں کیلئے شدید ناراضی کا اظہار وطن عزیز کے مستقبل پر شدید سوالات کا مظہر نظر آرہا ہے۔ سیاسی مخالفت اب ذاتی، گروہی اور اداراتی مخالفت، دشمنی، نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے، حد یہ ہے کہ گھروں میں، محلوں میں، اداروں میں حتیٰ کہ پورے معاشرے میں اختلاف، بحث، جھگڑوں نے اپنوں کو بھی غیر بنا دیا ہے۔ نزاع و اختلاف کی یہ خلیج کپتان کی حمایت اور مخالفت جس طرح وسیع ہو رہی ہے ہمارے اس خدشے کو تقویت دے رہی ہے جو گزشتہ کالموں میں اظہار کر چکے ہیں کہ وطن عزیز (حاکم بدھن) خانہ جنگی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
کپتان کا مصمم عزم پاکستان کی آزاد قوم کی حیثیت کے تحفظ، بیرونی و اندرونی دشمنوں کو انجام تک پہنچانے کے میری جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں، جب تک زندہ ہوں ان غداروں کو نہیں چھوڑوں گا، عوام کیلئے ایسا منشور بن چکا ہے جس کی تکمیل ان کا اولین فریضہ بن چکی ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کراچی، پشاور، لاہور میں ہونیوالے جلسوں کے بعد چاند رات کو عمران خان کی ہدایت پر عوام کا قومی پرچموں کیساتھ کپتان سے اظہار یکجہتی اور برآمدی حکومت و سہولت کاروں کیخلاف احتجاج پاکستان بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر قصبے، گائوں، محلے میں ہی نہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کے فلسفہ و عزم کی مکمل حمایت و تائید کی تصویر ہے۔ دوسری جانب وفاق اور پنجاب میں آئینی انتشار اور عدالتی فیصلوں اور حکومتی تشکیل پر محاذ آرائی خطرناک صورتحال کو جنم دیتی نظر آرہی ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ روضۂ رسولۖ پر حُرمت مقام مقدس کیخلاف واقعہ (جس کی ہر اُمتی مذمت کرتا ہے کہ ہماری جان، ماں باپ اور اولاد پیارے نبیۖ پر قربان) کے فوری بعد اسلام آباد میں قاسم سوری پرشاہ زین بگٹی کے لوگوں نے حملہ کیا۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ کراچی میں موجودہ حکومت کے بعض وزراء پر حملے ہوئے ہیں۔ کپتان کا مئی میں آخری رائونڈ کا اعلان جنگ اور 2 ملین افراد کی شمولیت بھی یقیناً بہت بڑے بحران و محاذ آرائی کا عندیہ ہے جو کسی بھی طرح ملکی سالمیت کیلئے بہتر نہیں ہو سکتا۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ سپہ سالار کو ہدف تنقید بنایا جا سکتا ہے، دوسری جانب حکومتی ہتھکنڈے بھی انتقامی طور پر جاری ہیں۔ 150 پی ٹی آئی افراد بشمول عمران کی گرفتاری کے اقدامات، عمران خان کی لانگ مارچ و دھرنے سے قبل پابند سلاسل کئے جانے کی خبریں، لگتا ہے کہ حالات اس موڑ پر لائے جا رہے ہیں جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہ ہو۔ ان تمام حالات میں اور معاشی ناہمواری کی کیفیت وطن عزیز کیلئے کسی بھی طور پر مفید نہیں ہو سکتی۔ کیا ملک و عوام کی بہتری و سالمیت کی خاطر ہمارے مقتدر سیاسی، ریاستی، آئینی و انتظامی ذمہ داران، خصوصاً جبکہ امریکی دفاعی تجزیہ کار لیٹر گیٹ سازش کی تصدیق کر چکی ہے، یکجا ہو کر کوئی ایسا فیصلہ یا اقدام نہیں کر سکتے جو اس بحران و انتشار سے ملک و قوم کا تحفظ کر سکے اور امن بحال ہو سکے۔
دیار نور میں طیرہ شبوں ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here