بھارت مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے اور جسمانی تشدد سمیت انکے گھر مسمار کررہا ہے جس کا ایک پورا تاریخی پس منظر ہے۔ بھارت سرکاری طور پر شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخیوں کی مذموم کوششوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو ٹیسٹ کررہا ہے وہاں اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والے اپنے پڑوسی ملک پاکستان اور اہل پاکستان کی بے بسی کا بھی فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی 5 اگست 2019 کو جو ریاست کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی واردات کی گئی وہ اسی مسلم دشمنی کی ایک سازش ہے۔ اس لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور جو بالخصوص او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے خلاف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر اقدامات کرکے ہندوستان کے خلاف مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے اور عالمی برادری کو بھی انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ میری خبر یہ ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور عملا ہم کچھ پیش بندی نہیں کررہے ہیں ۔ لیکن اس کی تفصیلات میں جانے سے پہلے میں ابتدا میں پورے وثوق سے پاکستان کے ارباب اختیار اور قوم کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اندرونی خلفشارسیاسی،معاشی،فکری اور نظریاتی اختلافات جس قدر موجودہ دور میں اندرون اور بیرون ملک دیکھے جا رہے ہیں اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔اس کی وجوہات میں ایک جانب عاقبت نا اندیش سیاست دان ہیں تو دوسری طرف ہمارے وہ لوگ ہیں جو نہ جمہوریت کو مضبوط ہونے دیتے ہیں اور نہ ان کی ملک سے وفاداری ہے ۔ دولت لوٹ لوٹ کر انکے پیٹ نہیںبھرتے جس سے ملک کی بنیادیں کمزور ہیں، معیشت کا جنازہ نکلتا جارہا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان اعتماد کا ہمیشہ فقدان رہتا ہے ۔ ہر دو چار سال بعد ایک تنائو اور باہم شوڈائون شروع ہوجاتا ہے اور ہم پھر وہیں واپس آکر رک جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے ۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دورمیں کوئی چیز ریاست کے کنٹرول میں نہیں رہی ہے۔ اب میڈیا پر ایسی درگت بنتی ہے کہ کوئی مقدس گائے نظر نہیں آتی۔ گزشتہ چند ماہ سے عوامی جذبات اور احساسات اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ کبھی ہم نے اپنے اداروں کے خلاف پہلے نہیں دیکھے۔ یہ قابلِ افسوس اور تشویشناک امر ہے۔ سیاسی انتشار اور دفاعی اداروں کا مرتبہ بلند رکھنا، انکی حوصلہ افزائی اور انہیں اعتماد دینا قوم کی اپنی ضرورت ہوتی ہے چونکہ اس کا تعلق ملک کے دفاع سے ہے مجھے ڈر ہے کہ جو ہمارے ملک کے اس وقت معاشی حالات ہیں اور جس طرح کی ہم میں تقسیم پائی جاتی ہے اس سے بھارت فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ہمیں براہ راست نقصان پہنچانے کی جرات کرسکتا ہے ۔ہم نے دیکھا کہ ہماری مغربی سرحدوں پر دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ملک میں بھارت کی پراکسی وار ہر دور میں جاری رہتی ہے جس سے ہمیں مالی اور جانی نقصان ہوتا رہتا ہے ۔ لائن آف کنٹرول پر بظاہر تو 2023 تک سیز فائر بندی معاہدہ ہے لیکن پھر بھی گاہے بگاہے وہاں بلااشتعال گولہ باری ہوتی رہتی ہے اور بھارت ہمیں اشتعال دلاتا رہتا ہے ۔اس موقع پر پاکستان کے فیصلہ ساز اور مقتدر حلقوں کو یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ بھارت نے روس سے اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالرز کا تیل خرید کر ذخیرہ کرلیا ہے تاکہ مستقبل قریب میں پاکستان پر حملے کی صورت میں ہماری مشرقی سرحد کو نشانہ بنایا جاسکے۔ پاکستان چونکہ شدید پیٹرولیم کے بحران سے اس وقت دوچار ہے ہماری کمزوری سے بھارت کو فائدہ ہو سکتا ہے ۔ہماری مسلح افواج چاک وچوبند ہیں بہادر ہیں لیکن جنگوں کی اپنی معاشی قیمت ہوتی ہے ہمارے ساتھ کون ہے؟ جب ادھار مانگ کر کھائیں گئے ،قرضوں کے بوجھ تلے دبتے رہیں گے ،سود ادا کرتے رہیں گے تو دشمن لازمی طور پر تر نوالہ سمجھے گا ۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریبا آٹھ سو سال حکومت کی ہے۔ ہندو کی شروع سے کوشش رہی ہے کہ وہ ہندوستان میں ایک کٹر ہندو مہاسبھائی ہندوتوا حکومت قائم کریں۔ تحریک پاکستان کے وقت مسلمانوں کا دو قومی نظریہ کارفرما تھا ۔ کانگریس نے ہندوستان کو وقت سے پہلے تقسیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور لارڈ مائونٹ بیٹن کو جلد از جلد تقسیم کرنے پر آمادہ کیا ۔تقسیم کے بعد دوسرا مسئلہ یہ رہا تھا کہ جو مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان سے جلد یا بدیر جان چھڑائی جائے۔ اس مقصد کے لئے انتہا پسند ہندووں نے انتہا پسند تنظیمیں شیوسینا, جن سنگ مہاسبھا قائم کی اور انتہا پسند سنگھٹن کی تحریک شروع کی تاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے اور ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے کانگریس کے نام نہاد سیکولرازم کے پردے میں اس پالیسی کو کانگریس نے جاری رکھا لیکن بی جے پی کی حکومت کے بعد مسلمان دشمن پالیسیوں کو تیز تر کردیا گیا اور دھرم پری ورتن کے فلسفے کے تحت عملی طور پر مسجدوں ,درگاہوں اور عبادت گاہوں پر حملے شروع کر دیئے گئے جس کا سب سے بڑا مظاہرہ بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا ۔اس کے علاوہ متھرا کی گیان واپی مسجد تاج محل اور قطب مینار کو ہندو مقامات قرار دے کر گرانے کی مکمل منصوبہ بندی کی جا چکی ہے اور گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ وہ واپس ہندو دھرم میں داخل ہوجائیں ۔ بھارت کی تمام ریاستوں کے اندر گاو رکھشا کے نام پر گلی کوچوں شہر شہر محلے محلے میں مسلمانوں پر حملے کئے جانے لگے تاکہ یا تو مسلمان ہندوستان چھوڑیں یا پھر ہندو بن جائیں۔مجموعی طور پر ہندوستان کے اندر اس وقت مسلمانوں کو بھارتی شہری تصور نہیں کیا جاتا اور نئے شہریت بل نے تو بھارت کے عزائم کو بے نقاب کردیا ۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان کو ایک متحدہ سلطنت بنانے کا سہرا مسلمانوں کے سر جاتا ہے جن کی وفاداری بھارت کے ساتھ رہی ہے لیکن برہمن انتہا پسند شیوسینا اور اسلام دشمن جوکہ نہ صرف ہندوستان سے مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بھی سازشوں میں مصروف اور سوتے جاگتے اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب دیکھتے ہیں۔
٭٭٭